کتاب: تفسیر النساء - صفحہ 145
ہو آپ کو وہ دو نور دئیے جاتے ہیں جو آپ سے پہلے کسی نبی کو نہیں دئیے گئے سورۂ فاتحہ اور سورۂ بقرہ کی آخری آیتیں ان کے ایک ایک حرف پر آپ کو نور دیا جائے گا۔[1]
صحیح بخاری میں ہے جو شخص ان دونوں آیتوں کو رات کو پڑھ لے اسے یہ دونوں کافی ہیں ۔[2]
طبرانی نے بسند جید شداد بن اوس رضی اللہ عنہ سے حدیث کی تخریج کی ہے کہتے ہیں : رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
((اِنَّ اللّٰہَ کَتَبَ کِتَابًا قَبْلَ اَنْ یَّخْلُقَ السَّمٰوَاتِ وَ الْأَرْضَ بِأَلْفَیْ عَامٍ فَأَنْزَلَ مِنْہُ اٰیَتَیْنِ خَتَمَ بِہِمَا سُوْرَۃَ الْبَقَرَۃِ لَا یُقْرَاٰنِ فِیْ دَارٍ ثَلَاثَ لَیَالٍ فَیَقْرَبُہَا شَیْطَانٌ)) [3]
’’یقینا اللہ نے زمین و آسمان کی پیدائش سے دو ہزار سال قبل ایک کتاب لکھی پھر اس میں سے دو آیتیں اتار کر سورۃ البقرۃ کو ختم کیا ہے یہ کسی گھر میں نہیں پڑھی جاتیں تین راتوں تک کہ پھر اس گھر کے شیطان قریب آ جائے (یہ ناممکن ہے)۔‘‘
مسند احمد میں ہے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:’’ سورۂ بقرہ کی آخری آیات عرش تلے کے خزانے سے دیا گیا ہوں مجھ سے پہلے کسی نبی کو یہ نہیں دی گئیں ۔‘‘[4]
صحیح مسلم شریف میں ہے:’’ جب حضور صلی اللہ علیہ وسلم کو معراج کروائی گئی اور آپ سدرۃ المنتہی پہنچے جو ساتویں آسمان میں ہے … وہاں حضور صلی اللہ علیہ وسلم کو تین چیزیں دی گئیں ۔ پانچ وقت کی نمازیں سورۂ بقرہ کے خاتمے کی آیتیں اور توحید والوں کے تمام گناہوں کی بخشش۔‘‘[5]
ایمان بالغیب کے چھ اجزاء
اس آیت میں تفصیلات سے قطع نظر اسلام کے عقائد اور اسلامی طرز عمل کا خلاصہ بیان کر دیا گیا ہے اور وہ یہ ہے: اللہ، اس کے فرشتوں اور اس کی کتابوں کو ماننا اور اس کے تمام رسولوں کو تسلیم کرنا بغیر اس کے کہ ان کے
[1] صحیح مسلم، کتاب صلاۃ المسافرین، باب فضل الفاتحۃ و خواتیم سورۃ البقرۃ، رقم: ۸۰۶۔
[2] صحیح بخاری، کتاب فضائل القرآن، باب فضل سورۃ البقرۃ، رقم: ۵۰۰۹۔ صحیح مسلم، کتاب صلاۃ المسافرین، باب فضل الفاتحۃ و خواتیم البقرۃ، رقم: ۸۰۷۔ سنن ابو داود: ۱۳۹۷۔
[3] جامع الترمذی، کتاب فضائل القرآن، باب ما جاء فی آخر سورۃ البقرۃ، رقم: ۲۸۸۲۔ مسند احمد: ۴/۲۷۴۔ ابن حبان: ۲۸۲۔ حاکم: ۲/۲۶۰۔ اس کو حاکم، ذہبی اور البانی رحمہم اللہ نے صحیح قرار دیا ہے۔ (المشکاۃ: ۲۱۴۵)
[4] مسند احمد: ۵/۳۸۳۔ صحیح۔
[5] صحیح مسلم، کتاب الایمان، باب فی ذکر سدرۃ المنتہی، رقم: ۱۷۳۔ نسائی فی الکبری: ۳۱۵۔ دیکھیے تفسیر ابن کثیر: ۴۹۴-۴۹۵۔ فتح القدیر: ۱/۳۹۲۔