کتاب: تفسیر النساء - صفحہ 133
﴿ إِن تُبْدُوا الصَّدَقَاتِ فَنِعِمَّا هِيَ ۖ وَإِن تُخْفُوهَا وَتُؤْتُوهَا الْفُقَرَاءَ فَهُوَ خَيْرٌ لَّكُمْ ۚ وَيُكَفِّرُ عَنكُم مِّن سَيِّئَاتِكُمْ ۗ وَاللَّـهُ بِمَا تَعْمَلُونَ خَبِيرٌ ﴾
’’اگر تم صدقے ظاہر کرو تو یہ اچھی بات ہے اور اگر انھیں چھپاؤ اور انھیں محتاجوں کو دے دو تو یہ تمھارے لیے زیادہ اچھا ہے اور یہ تم سے تمھارے کچھ گناہ دور کرے گا اور اللہ اس سے جو تم کر رہے ہو، پوری طرح با خبر ہے۔‘‘
صدقے کا اظہار
جمہور مفسرین اس طرف گئے ہیں کہ یہ آیت نفل صدقے بارے ہے نہ کہ فرض صدقے بارے اسے مخفی رکھنے کی کوئی فضیلت نہیں بلکہ کہا جاتا ہے اسے ظاہر کرنا افضل ہے۔[1]
جو صدقہ فرض ہو اسے اعلانیہ دینا افضل ہے اور جو صدقہ فرض کے ماسوا ہو اس کا اخفاء زیادہ بہتر ہے۔ یہی اصول تمام اعمال کے لیے ہے کہ فرائض کا علانیہ انجام دینا فضیلت رکھتا ہے اور نوافل کو چھپا کر کرنا اولیٰ ہے۔[2]
ظاہر کر کے صدقہ دینا بھی اچھا ہے اور چھپا کر فقراء و مساکین کو دینا بہت ہی بہتر ہے اس لیے کہ یہ ریاکاری سے کوسوں دُور ہے ہاں یہ اور بات ہے کہ ظاہر کرنے میں کوئی دینی مصلحت ہو یا دینی فائدہ ہو مثلاً اس لیے کہ اور لوگ بھی دیں ، وغیرہ۔ حدیث شریف میں ہے کہ صدقہ کا ظاہر کرنے والا مثل بلند آواز سے قرآن پڑھنے والے کے ہے اور اسے چھپانے والا آہستہ پڑھنے والے کی طرح ہے۔[3]
بخاری و مسلم میں بروایت سیّدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ فرمان رسول صلی اللہ علیہ وسلم ہے:’’سات اشخاص کو قیامت کے دن اللہ تعالیٰ اپنے سائے میں جگہ دے گا جس دن اس کے سائے کے سوا اور کوئی سایہ نہ ہو گا۔ عادل بادشاہ، وہ نوجوان جو اپنی جوانی اللہ کی عبادت اور شریعت کی فرمانبرداری میں گزارے وہ دو شخص جو اللہ تعالیٰ کے لیے آپس میں محبت رکھیں اسی پر اکٹھے ہوں اور اسی پر جدا ہوں ۔ وہ شخص جس کا دل مسجد میں لگا رہے نکلنے کے وقت سے جانے وقت تک وہ شخص جو خلوت میں اللہ کا ذکر کر کے رو دے، وہ شخص جسے کوئی منصب و جمال والی عورت بدکاری کی طرف بلائے اور وہ کہہ دے کہ میں تو اللہ رب العالمین سے ڈرتا ہوں اور وہ شخص جو اپنا صدقہ اس قدر چھپا کر دے کہ بائیں ہاتھ کو دائیں ہاتھ کے خرچ کی خبر تک نہ ہو۔‘‘[4]
[1] فتح القدیر: ۱/۳۶۷۔
[2] تفہیم القرآن: ۱/۲۰۸۔
[3] سنن ابو داود، کتاب الصلاۃ، باب رفع الصوت بالقراء ۃ فی صلاۃ اللیل، رقم: ۱۳۳۳۔ جامع الترمذی: ۲۹۱۹۔ و صححہ الالبانی۔ دیکھیے: المشکاۃ، حدیث: ۲۲۰۲۔ التحقیق الثانی۔ تفسیر ابن کثیر: ۱/۴۷۰۔
[4] صحیح البخاری، کتاب الاذان، باب من جلس فی المسجد ینتظر الصلاۃ، رقم: ۶۶۰۔ صحیح مسلم: ۱۰۳۱۔