کتاب: تفسیر النساء - صفحہ 100
کو اپنی سواری الٹی کر دی۔ آپ نے کچھ جواب نہ دیا۔ اسی وقت یہ آیت نازل ہوئی اور آپ نے فرمایا: ’’سامنے سے آؤ پیچھے سے آؤ اختیار ہے لیکن حیض کی حالت میں نہ آؤ اور پاخانہ کی جگہ سے نہ آؤ۔‘‘[1] ﴿فَاْتُوْا حَرْثَکُمْ اَنّٰی شِئْتُمْ﴾ یہودی کہا کرتے تھے اگر کوئی شخص اپنی بیوی کے پاس اس کے پیچھے سے آئے تو بچہ بھینگا پیدا ہوتا ہے (ان کے خیال کی تردید میں ) یہ آیت نازل ہوئی۔[2] یعنی فطری طور پر اللہ نے عورتوں کو مردوں کے لیے سیر گاہ نہیں بنایا بلکہ ان دونوں کے درمیان کھیت اور کسان کا سا تعلق ہے کھیت میں کسان محض تفریح کے لیے نہیں جاتا بلکہ اس لیے جاتا ہے کہ اس سے پیداوار حاصل کرے۔ خدا کی شریعت کو اس سے بحث نہیں کہ تم اس کھیت میں کاشت کس طرح کرتے ہو البتہ اس کا مطالبہ تم سے یہ ہے کہ جاؤ کھیت ہی میں اور اس غرض کے لیے جاؤ کہ اس سے پیداوار حاصل کرنی ہے۔[3] ﴿قَدِّمُوْا لِأَنْفُسِکُمْ﴾ اس کے دو مطلب ہیں ایک یہ کہ اپنی نسل برقرار رکھنے کی کوشش تاکہ تمہارے دنیا چھوڑنے پر تمہارے کام کرنے والے جانشین موجود ہوں ۔ دوسرا آنے والی نسلوں کو دین، اخلاق اور آدمیت کے جوہروں سے آراستہ کرنے کی کوشش کرو۔ آگے فرمایا: ان دونوں فرائض سے اگر قصداً کوتاہی کی تو اللہ تم سے باز پرس کرے گا۔[4]
[1] سنن ترمذی، تفسیر القرآن، باب و من سورۃ البقرۃ، رقم: ۲۹۸۰۔ مسند احمد: ۱/۲۹۷۔ حسن، آداب الزفاف: ۲۸-۲۹۔ دیکھیے: تفسیر ابن کثیر تحت آیۃ مذکورۃ۔ [2] صحیح بخاری، کتاب التفسیر، باب تحت آیۃ مذکورۃ۔ صحیح مسلم، کتاب النکاح، باب جواز جماعہ امراتہ فی قبلہا من قدامہا و من ورائہا من غیر تعرض للدبر۔ دیکھیے: تیسیر القرآن: ۱/۱۷۱۔ [3] تفہیم القرآن: ۱/۱۷۰۔ [4] تفہیم القرآن: ۱/۱۷۰۔