کتاب: تفسیر سورۂ یوسف - صفحہ 99
1 ” لِنَصْرِفَ عَنْهُ السُّوْءَ “ 2. ” وَالْفَحْشَاء “ 3. ” اِنَّهٗ مِنْ عِبَادِنَا “ 4. ” الْمُخْلَصِيْنَ “[1]
سیدنا یوسف علیہ السلام کے دل میں بدی کا خیال گزرا ہی نہیں یہی راجح تفسیرہے اور"صاحب محاسن التنزیل، شیخ الاسلام ثناء اللہ امرتسری، مولانا ابو الکلام آزاد، مولانا ابو الاعلی مودودی وغیرھم نے اسی تفسیر کو ترجیح دی ہے، اور ابھی آگے آئے گا کہ یوسف نے اپنے آپ کو اس گناہ سے بچانے کے لیے دروازے کی طرف بھاگنا شروع کیا، اور جس انداز میں بھاگے وہ کیفیت اس آدمی کی نہیں ہوسکتی جس کے دل میں عورت کی طرف میلان پیدا ہوگیا ہو، قرآن میں ایک کلمہ بھی ایسا نہیں ہے جس سے ادنی سا اشارہ ہوتا ہو کہ یوسف کے دل میں زلیخا کی طرف میلا پیدا ہوا تھا۔ اور نبی کو ایسا ہی ہونا چاہیے، اگر اس کے دل میں بھی گناہ کا خیال گزر جائے تو پھر اس میں اور غیر نبی میں کیا فرق ہوگا حق تو یہ ہے کہ اس طرح کی بحث چھیڑنا نبی کی عظمت شان پر کلام کرنے کے مترادف ہوگا، جو ایک مخلص مسلمان کو زیب نہیں دیتا، اور یہ جو بعض لوگوں نے کہا ہے کہ اگر بشری تقاضے کے مطابق انبیاء کے دل میں گناہ کا میلا نہ ہو پیدا ہو تو پھر انہیں اجر کس بات کا ملے گا، تو یہ بات بھی صحیح نہیں ہے، اس لیے کہ جب وہ اپنی حلال بیویوں اور باندیوں کے پاس ہوتے تھے تو ان کی فطری رغبت جاگتی تھی، تو انہیں اجر اس بات کا ملتا تھا کہ فطری قوت ہونے کے باوجود محرمات کے سامنے ان کے دل میں گناہ کا خیال نہیں گزرتا تھا۔ وباللہ التوفیق " [2]
﴿وَاسْتَبَقَا الْبَابَ وَقَدَّتْ قَمِيْصَهٗ مِنْ دُبُرٍ وَّاَلْفَيَا سَيِّدَهَا لَدَا الْبَابِ ۭ قَالَتْ مَا جَزَاۗءُ مَنْ اَرَادَ بِاَهْلِكَ سُوْۗءًا اِلَّآ اَنْ يُّسْجَنَ اَوْ عَذَابٌ اَلِيْمٌ ()قَالَ هِىَ رَاوَدَتْنِيْ عَنْ نَّفْسِيْ وَشَهِدَ شَاهِدٌ مِّنْ اَهْلِهَا ۚ اِنْ كَانَ قَمِيْصُهٗ قُدَّ مِنْ قُبُلٍ فَصَدَقَتْ وَهُوَ مِنَ الْكٰذِبِيْنَ ﴾
’’دونوں دروازے کی طرف دوڑے اور اس عورت نے یوسف کا کرتا پیچھے کی طرف سے کھینچ کرپھاڑ ڈالا اور دروازے کے پاس ہی عورت کا شوہر دونوں کو مل گیا، تو کہنے لگی جو شخص تیری بیوی
[1] حافظ عبد السلام بھٹوی: تفسیر القرآن العظیم
[2] محمد لقمان سلفی:تفسیر تیسیر الرحمان لبیان القرآن