کتاب: تفسیر سورۂ یوسف - صفحہ 98
6.زنان مصر : (مَا عَلِمْنَا عَلَیْہ مِنْ سُوْءٍ ) 7. اور خود عزیز کی بیوی : (وَاِنَّهٗ لَمِنَ الصّٰدِقِيْنَ ) 8. خود یوسف (علیہ السلام) نے بعد میں فرمایا : (وَاِلَّا تَصْرِفْ عَنِّيْ كَيْدَهُنَّ اَصْبُ اِلَيْهِنَّ وَاَكُنْ مِّنَ الْجٰهِلِيْنَ ) کہ اگر تو مجھ سے ان کے فریب کو نہ ہٹائے گا تو میں ان کی طرف مائل ہوجاؤں گا، یہ صریح دلیل ہے کہ وہ مائل نہیں ہوئے تھے۔ سب کی شہادتیں ہمارے سامنے ہیں ۔ رہے وہ مفسرین جو یوسف (علیہ السلام) کو بلا دلیل گناہ کے عین کنارے پر پہنچا کر پیچھے ہٹاتے ہیں ، وہ اللہ تعالیٰ کو خود جواب دہ ہوں گے اور جو مفسرین ان بند دروازوں میں ہونے والی گفتگو بھی بڑی تفصیل سے بیان کرتے ہیں وہ شاید وہاں چھپ کر سنتے رہے ہوں گے، یا ان کے پاس اللہ تعالیٰ کی وحی آئی ہوگی، کیونکہ قرآن و حدیث اور عقل و فطرت میں سے تو کوئی چیز ان مکالموں کی تائید نہیں کرتی۔ لَوْلَآ اَنْ رَّاٰ بُرْهَانَ رَبِّهٖ : وہ رب کی دلیل کیا تھی ؟ اس کی تعیین میں رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے صحت کے ساتھ کوئی چیز ثابت نہیں ہے، البتہ مفسرین نے مختلف اقوال نقل کیے ہیں جو محض اقوال ہیں ۔ ہمارے استاذ مولانا محمد عبدہ (رض) فرماتے ہیں : ” ہوسکتا ہے کہ ایک نبی کے اخلاق کی بلندی اس کی اجازت نہ دیتی ہو کہ زنا جیسے برے کام پر آمادہ ہوں اور اسی کو یہاں ” بُرْهَانَ رَبِّهٖ “ سے تعبیر فرمایا ہو۔ “ اِنَّهٗ مِنْ عِبَادِنَا الْمُخْلَصِيْنَ : ” اَلْمُخْلِصِیْنَ “ لام کے کسرہ کے ساتھ ہو تو اخلاص والے، نیک بخت بندے مراد ہوں گے اور ” الْمُخْلَصِيْنَ “ لام کے فتحہ کے ساتھ ہو تو معنی ہوگا وہ جنھیں چن لیا گیا ہے، اللہ تعالیٰ نے اپنے لیے خالص کرلیا ہے۔ یہاں لام کے فتحہ کے ساتھ ہے، یعنی وہ لوگ جنھیں اللہ تعالیٰ کی طرف سے چنے جانے کا شرف حاصل ہوا۔ مخلص بندہ ہونا ان دونوں باتوں کی علت ہے کہ یوسف (علیہ السلام) نے برائی کا ارادہ بھی نہیں کیا اور یہ کہ ہم نے برائی و بےحیائی کو ان سے ہٹا کر رکھا، کیوں ؟ اس لیے کہ وہ ہمارے چنے ہوئے بندوں میں سے تھے، جن کے متعلق شیطان نے خود اعتراف کیا تھا کہ میں انہیں گمراہ نہیں کرسکوں گا، اس نے کہا تھا : (اِلَّا عِبَادَكَ مِنْهُمُ الْمُخْلَصِيْنَ ) [ الحجر : ٤٠ ] ” مگر ان میں سے تیرے وہ بندے جو خالص کیے ہوئے ہیں ۔ “ اس ایک آیت میں اللہ تعالیٰ نے یوسف (علیہ السلام) کی طہارت چار بار بیان کی ہے : .