کتاب: تفسیر سورۂ یوسف - صفحہ 96
("الطباق" ط کے کسرہ کے ساتھ ہے اور اہل بدیع کے ہاں محسنات معنویہ میں سے ہے،اس کو مطابقت،تطبیق،تضاد اور تکافؤ بھی کہا جاتا ہے۔ طباق دو ضدوں کو جمع کرنا ہے۔طباق سے صرف دو ایسے متضاد یہی مراد نہیں ہیں جن میں غایت درجہ کا تضاد پایا جاتا ہے حیسے سیاہ اور سفید ہیں بلکہ یہ اس سے عام اور وسیع ہے اور کوئی بھی دو متضاد کہ جن کےدرمیان کسی طرح کا بھی حقیقی یا اعتباری تقابل اور تنافی ہو وہ طباق ہے تقابل تضاد ہو ،ایجاب ہو یا تقابل سلب یہ لفظ طباق سب پر منطبق ہوتا ہے اسی طرح یہ تقابل عدم ملکہ اور تقابل تضایف یا جو چیز اس کے مشابہ ہو ،پر بھی بولا جاتا ہے ۔مطول میں اسی طرح ہے ۔مطابقت کی بابت یہ بھی کہا گیا ہے،جسے طباق کہا جاتا ہے کہ دو موافق اشیاء یا متضاد اشیاء کو جمع کرنا ہے۔ ۔ ۔ ۔ جیسے اللہ تعالی کا یہ قول ہے : ﴿ فَأَمَّا مَنْ أَعْطى وَاتَّقى، وَصَدَّقَ بِالْحُسْنى، فَسَنُيَسِّرُهُ لِلْيُسْرى، وَأَمَّا مَنْ بَخِلَ وَاسْتَغْنى، وَكَذَّبَ بِالْحُسْنى، فَسَنُيَسِّرُهُ لِلْعُسْرى﴾پس اعطاء، اتقاء، اور تصدیق بخل، استغناء اور تکذیب کی ضد ہے،چنانچہ پہلا مجموعہ آسانی کی شرط ہے جبکہ دوسرا مجموعہ دشواری کی شرط ہے۔ جرجانی میں اسی طرح ہے۔( تفسیروبیان(آیات از 23تا29)﴿وَرَاوَدَتْهُ الَّتِي ۔ ۔ ۔ مِنَ الْخَاطِئِينَ﴾ تک آیات کی تفسیر ﴿وَلَقَدْ هَمَّتْ بِهٖ ۚ وَهَمَّ بِهَا لَوْلَآ اَنْ رَّاٰ بُرْهَانَ رَبِّهٖ ۭ كَذٰلِكَ لِنَصْرِفَ عَنْهُ السُّوْۗءَ وَالْفَحْشَاۗءَ ۭ اِنَّهٗ مِنْ عِبَادِنَا الْمُخْلَصِيْنَ ﴾ ’’ اس عورت نے یوسف کی طرف قصد کیا اور یوسف اس کا قصد کرتے اگر وه اپنے پروردگار کی دلیل نہ دیکھتے، یونہی ہوا اس واسطے کہ ہم اس سے برائی اور بے حیائی دور کر دیں ۔ بے شک وه ہمارے چنے ہوئے بندوں میں سے تھا‘‘