کتاب: تفسیر سورۂ یوسف - صفحہ 92
وہ آپ کو عزیز مصر کے گھر میں مختار کی حیثیت سے رہنے میں میسر آگئی۔ اس آیت میں تاویل الاحادیث سے مراد یہی رموز مملکت ہیں اور اس غرض کے لیے اللہ تعالیٰ نے جس طرح اسباب کے رخ کو موڑ دیا وہ اکثر لوگوں کے وہم و گمان میں بھی نہیں آسکتا۔" [1] "یوسف کے بھائیوں نے یہ چاہا تھا کہ یوسف اعلیٰ مرتبہ اور بلند درجے کو نہ پہنچے مگر اللہ جل شانہ اپنے ارادہ پر غالب ہے جو وہ کرنا چاہتا ہے اسے کوئی نہیں روک سکتا اس کے سامنے سب عاجز ہیں اس کے علم میں جو کچھ پہلے ٹھہر چکا ہے وہ اس کو پورا کر ہی کے رہتا ہے اکثر آدمی اس بات کو نہیں جانتے اور یہ چاہتے ہیں کہ کسی طرح تقدیر الٰہی رک جائے اور جو منشاء خداوند جل جلالہ کا ہے وہ نہ ہونے پائے۔ بہر حال اسی وجہ سے کہ اللہ پاک کا ارادہ پورا ہو کر رہتا ہے اور کوئی امر اس کو روک نہیں سکتا۔" [2] حکمت اور علم ﴿ وَلَمَّا بَلَغَ اَشُدَّہٗ اٰتَیْنَہُ حُکْمًا وَّعِلْمًا﴾ (اور جب وہ اپنی جوانی کو پہنچا تو ہم نے اسے حکمت اور علم عطا کیا) حکم اور علم کی وضاحت کرتے ہوئے علامہ قرطبی فرماتے ہیں : "اٰتینٰہ حکمًا وعلمًا ایک قول یہ ہے : ہم نے اس کو حکومت کا والی بنادیا۔ اور وہ بادشاہ کی سلطانی میں فیصلہ کرتے تھے ہم نے ان کو فیصلہ کا علم دیا۔ مجاہد نے کہا : (اس سے مراد) عقل، فہم اور نبوت ہے۔ ایک قول یہ ہے : حکم سے مراد نبوت اور علم سے مراد علم دین ہے۔ ایک قول کے مطابق : خواب کی تعبیر کا علم (مراد ہے) اور جس نے کہا : آپ کو بچپن میں نبوت دے دی گئی تھی اس نے کہا جب آپ جو بن کو پہنچے تو ہم نے ان کی سمجھ اور علم میں اضافہ کردیا۔" [3]
[1] مولانا عبد الرحمان کیلانی: تفسیر تیسیر القرآن۔ [2] حافظ محمد سید احمد حسن: احسن التفاسیر،جلد3صفحہ،152۔ [3] القرطبی،ابو عبد الله ،محمد بن احمد بن ابی بكر بن فرح الأنصاری الخزرجی شمس الدين (المتوفى: 671ھ): الجامع لأحكام القرآن الشهيربتفسير القرطبی ،جلد9صفحہ162۔