کتاب: تفسیر سورۂ یوسف - صفحہ 91
"مصر میں جس شخص نے اس لڑکے کو خریدا وہ کسی اعلیٰ سرکاری منصب پر فائز تھا اور بےاولاد تھا۔ اس نے لڑکے کی شکل و صورت اور عادات و خصائل دیکھ کر ہی یہ اندازہ لگا لیا تھا کہ یہ لڑکا غلام نہیں ہوسکتا۔ یہ تو کسی معزز خاندان کا ایک فرد ہے جسے حوادث زمانہ نے یہاں تک پہنچا دیا ہے۔ لہذا اس نے اپنے گھر کا سارا انتظام اور کام کاج سیدنا یوسف کے سپرد کردیا اور بیوی سے تاکیداً کہہ دیا کہ اسے غلام نہ سمجھو بلکہ گھر کا ایک فرد سمجھو اور عزت و وقار سے رکھو، یہ ہمارے لیے بہت سود مند ثابت ہوگا اور کیا عجب کہ ہم اسے اپنا متبنّیٰ ہی بنالیں ۔" [1] " عزیز مصر کا نام بعض مفسرین نے قطفیر بتایا ہے اور اس قول کو حضرت ابن عباس (رض) کی طرف منسوب کیا ہے۔ اس کی بیوی کا نام زلیخا مشہور ہے ‘ اور ایک قول یہ ہے کہ اس کا نام راعیل تھا ‘ جس شخص کو چند روز پہلے بھائیوں نے کنویں میں ڈال دیا تھا وہی شخص آج عزیز مصر کے گھر میں اکرام وانعام و راحت وآرام کے ساتھ رہ رہا ہے اللہ جل شانہ جسے بلند کرنا چاہے اسے کوئی بھی نہیں روک سکتا۔ ﴿ وَکَذٰلِکَ مَکَّنَّا لِیُوْسُفَ فِی الْاَرْضِ ﴾ (اور اس طرح ہم نے یوسف (علیہ السلام) کو سر زمین میں قوت عطا کی) ۔ " [2] رموز مملکت اور اصول حکمرانی کی تعلیم " تاویل الاحادیث سے مراد رموز مملکت اور اصول حکمرانی ہیں :۔ عزیز مصر کے ہاں سیدنا یوسف (علیہ السلام) کو اس طرح کا باوقار مقام حاصل ہوجانا اس مستقبل کی طرف پہلا زینہ تھا جس میں آپ کو پورے ملک مصر کی حکومت اللہ کی طرف سے عطا ہونے والی تھی۔ آپ کی سابقہ زندگی خالصتاً بدوی ماحول میں گزری تھی اور اس سابقہ زندگی میں بدوی زندگی کے محاسن اور سیدنا ابراہیم (علیہ السلام) کے خاندان میں سے ہونے کی وجہ سے صرف اکیلے اللہ کی پرستش اور دینداری کے عنصر ضرور شامل تھے مگر اللہ تعالیٰ اس وقت کے سب سے زیادہ متمدن اور ترقی یافتہ ملک یعنی مصر میں آپ سے جو کام لینا چاہتا تھا اور اس کام کے لیے جس واقفیت تجربے اور بصیرت کی ضرورت تھی
[1] مولانا عبد الرحمان کیلانی: تفسیر تیسیر القرآن۔ [2] مولانا عاشق الہی: انوار القرآن۔