کتاب: تفسیر سورۂ یوسف - صفحہ 89
یوسف کو بیچنے والے کون تھے ؟ "برادران یوسف یا قافلے والے :۔ بائیبل کی روایت کے مطابق تو قرآن کے لفظ (وَشَرَوْہُ ) کی ضمیر کا مرجع برادران یوسف ہیں ۔ یعنی برادران یوسف نے سیدنا یوسف (علیہ السلام) کو معمولی سی قیمت کے عوض قافلہ والوں کے ہاتھ بیچ ڈالا۔ کیونکہ وہ یوسف کی خبرگیری رکھتے تھے اور بروقت جھگڑا کھڑا کردیا کہ یہ لڑکا ہمارا غلام ہے جو گھر سے بھاگ آیا تھا اور ہم اس کی تلاش میں تھے۔ بالآخر انہوں نے ان قافلہ والوں سے معمولی سی قیمت کے عوض اس کی سودا بازی کرلی۔ کیونکہ یہ جو رقم انہیں مل رہی تھی مفت میں مل رہی تھی۔ لہذا انہوں نے اتنی قیمت کو بھی غنیمت سمجھا۔ ان کی اصل غرض تو یہی تھی کہ یوسف یہاں سے دور کسی ملک میں پہنچ جائے اور یہ مقصد پورا ہو رہا تھا اور یہی قصہ عوام میں زبان زد عام ہے۔ لیکن قرآن کا سیاق وسباق اس مفہوم کی تائید نہیں کرتا۔ قرآن کے مطابق اس آیت کا مفہوم یہ ہے کہ قافلہ والوں نے مصر میں جاکر اس لڑکے (یوسف (علیہ السلام) کو فروخت کر ڈالا اور اسے معمولی قیمت میں اس لیے بیچ ڈالا کہ انہیں بھی یہ مال مفت میں ہاتھ لگ گیا تھا۔ لہذا زیادہ قیمت لگانے میں ان کی کوئی دلچسپی نہ تھی۔ " [1] آیات از21 تا22﴿وَقَالَ الَّذِي اشْتَرَاهُ ۔ ۔ ۔ وَكَذَلِكَ نَجْزِي الْمُحْسِنِينَ﴾ ﴿ وَقَالَ الَّذِي اشْتَرَاهُ مِنْ مِصْرَ لِامْرَأَتِهِ أَكْرِمِي مَثْوَاهُ عَسَى أَنْ يَنْفَعَنَا أَوْ نَتَّخِذَهُ وَلَدًا وَكَذَلِكَ مَكَّنَّا لِيُوسُفَ فِي الْأَرْضِ وَلِنُعَلِّمَهُ مِنْ تَأْوِيلِ الْأَحَادِيثِ وَاللَّهُ غَالِبٌ عَلَى أَمْرِهِ وَلَكِنَّ أَكْثَرَ النَّاسِ لَا يَعْلَمُونَ (21) وَلَمَّا بَلَغَ أَشُدَّهُ آتَيْنَاهُ حُكْمًا وَعِلْمًا وَكَذَلِكَ نَجْزِي الْمُحْسِنِينَ ﴾ |21| 12مصر والوں میں سے جس نے اسے خریدا تھا اس نے اپنی بیوی سے کہا کہ اسے بہت عزت واحترام کے ساتھ رکھو، بہت ممکن ہے کہ یہ ہمیں فائده پہنچائے یا اسے ہم اپنا بیٹا ہی بنا لیں ، یوں ہم نے مصر کی سرزمین میں یوسف کا قدم جما دیا کہ ہم اسے خواب کی تعبیر کا کچھ علم سکھا دیں ۔ اللہ اپنے
[1] مولانا عبد الرحمان کیلانی: تفسیر تیسیر القرآن۔