کتاب: تفسیر سورۂ یوسف - صفحہ 88
"اس معاملہ کی سادہ صورت یہ معلوم ہوتی ہے کہ برادرانِ یوسف حضرت یوسف (علیہ السلام) کو کنویں میں پھینک کر چلے گئے تھے۔ بعد میں قافلے والوں نے آکر ان کو وہاں سے نکالا اور مصر لے جا کر بیچ دیا۔ مگر بائبل کا بیان ہے کہ برادرانِ یوسف ( علیہ السلام) نے بعد میں اسماعیلیوں کے ایک قافلے کو دیکھا اور چاہا کہ یوسف ( علیہ السلام) کو کنویں سے نکال کر ان کے ہاتھ بیچ دیں ۔ لیکن اس سے پہلے ہی مدین کے سوداگر انہیں کنویں سے نکال چکے تھے۔ ان سوداگروں نے حضرت یوسف (علیہ السلام) کو بیس روپے میں اسماعیلیوں کے ہاتھ بیچ ڈالا پھر آگے چل کر بائبل کے مصنفین یہ بھول جاتے ہیں کہ اوپر وہ اسماعیلیوں کے ہاتھ حضرت یوسف ( علیہ السلام) کو فروخت کرا چکے ہیں ۔ چناچہ اسماعیلیوں کے بجائے پھر مدین ہی کے سوداگروں سے مصر میں انہیں دوبارہ فروخت کراتے ہیں ۔ (ملاحظہ ہو کتاب پیدائش باب ٣٧۔ آیت ٢٥ تا ٢٨ و آیت ٣٦) ۔ اس کے برعکس تلمود کا بیان ہے کہ مدین کے سوداگروں نے حضرت یوسف (علیہ السلام) کو کنویں سے نکال کر اپنا غلام بنا لیا پھر برادرانِ یوسف ( علیہ السلام) نے حضرت یوسف (علیہ السلام) کو ان کے قبضہ میں دیکھ کر ان سے جھگڑا کیا۔ آخرکار انھوں نے بیس درہم قیمت ادا کرکے برادرانِ یوسف ( علیہ السلام) کو راضی کیا۔ پھر انھوں نے بیس ہی درہم میں حضرت یوسف (علیہ السلام) کو اسماعیلیوں کے ہاتھ بیچ دیا اور اسماعیلیوں نے مصر لے جا کر انہیں فروخت کیا۔ یہیں سے مسلمانوں میں یہ روایت مشہور ہوئی ہے کہ برادرانِ یوسف ( علیہ السلام) نے حضرت یوسف (علیہ السلام) کو فروخت کیا تھا لیکن واضح رہنا چاہیے کہ قرآن اس روایت کی تائید نہیں کرتا۔" [1] ﴿وَاللَّهُ عَلِيمٌ بِمَا يَعْمَلُونَ﴾( اور اللہ تعالیٰ اس سے باخبر تھا جو وه کر رہے تھے۔) انھی حالات کو مد نظر رکھتے ہوئے جن کا یوسف علیہ السلام کو سامنا کرنا پڑا،اللہ نے آیت کے آخر میں دھمکی کے طور پر فرمایا کہ یوسف کے ان تمام حالات سے گزرنے کا جو لوگ سبب تھے، اللہ انہیں خوب جانتا ہے کہ کس طرح انھوں نے کریم بن کریم بن کریم بن کریم کو طوق غلامی پہنا دیا۔
[1] مولانا مودودی :تفہیم القرآن