کتاب: تفسیر سورۂ یوسف - صفحہ 87
ہے : یہ کنوئے پر وارد ہونے والے آدمی اور اس کے دوسرے دوستوں سے کنایۃ ہے۔ بضاعۃً حال ہونے کی وجہ سے منصوب ہے۔ مجاہد نے کہا : مالک بن دعر اور اس کے دوستوں نے آپ کو ان تاجروں سے چھپایا جوان کے ساتھ اس جماعت میں تھے۔ انہوں نے انہیں کہا : یہ سامان ہے اہل شام میں سے کسی نے یا اس پانی والوں میں سے کسی نے یہ ہمیں دیا ہے تاکہ ہم اسے مصر پہنچادیں ۔ اور انہوں نے یہ بات صرف اس خوف سے کی کہ کہیں وہ بھی ان کے ساتھ اس میں شریک نہ ہوجائیں ۔ حضرت ابن عباس (رض) نے کہا : حضرت یوسف (علیہ السلام) کے بھائیوں نے آپ کو ( قیمتی) سامان سمجھ کر چھپالیا جب آپ نے کنوئے سے نکلنا چاہا۔ اس قول کی وجہ یہ ہے کہ جب وہ آئے تو انہوں نے کہا : تم نے کتنا برا کام کیا ہے، یہ تو ہمارا غلام ہے۔ اور انہوں نے عبرانی زبان میں حضرت یوسف (علیہ السلام) کو کہا : یا تو ہماری غلامی کا اقرار کرو تو ہم تمہیں ان کے ہاتھوں بیچ دیں گے تاہم تجھے لے لیں گے اور قتل کردیں گے۔ تو آپ نے کہا : میں تمہاری غلامی کا اقرار کرتا ہوں ۔ آپ نے ان کی غلامی کا اقرار کیا تو انہوں (بھائیوں ) نے آپ کو ان (قافلے والوں ) کے ہاتھوں بیچ دیا : ایک قول یہ ہے : آپ کے بھائی یہوذا نے آپ کو کہا کہ آپ اپنے بھائیوں کی غلامی کا اعتراف کرلیں ورنہ مجھے ڈر ہے کہ یہ آپ کو قتل کردیں گے۔ تو اس طرح شاید اللہ تعالیٰ آپ کے لیے نکلنے کی کوئی راہ بنادے اور آپ قتل سے نجات پالیں ، تو حضرت یوسف (علیہ السلام) نے اپنے بھائیوں کے قتل کے خوف سے اپنی حقیقی صورتحال چھپالیں ۔ مالک نے کہا : اللہ تعالیٰ کی قسم ! یہ غلام کی نشانی نہیں ہے۔ انہوں (بھائیوں ) نے کہا : اس نے ہماری گود میں پرورش پائی ہے۔ ہمارے اخلاق سے مزین ہوا ہے اور ہمارے آداب سیکھے ہیں ۔ تو اس نے کہا : اے بچے تو کیا کہتا ہے ؟ آپ نے فرمایا : انہوں نے سچ کہا ہے، میں نے ان کی گود میں پرورش پائی ہے۔ اور ان کے اخلاق سے مزین ہوا ہوں ، تو مالک بن دعر نے کہا : اگر اسے میرے ہاتھ بیچو تو میں اسے تم سے خرید لیتا ہوں ۔ تو انہوں نے آپ کو اس کے ہاتھ بیچ دیا۔ " [1]
[1] القرطبی،ابو عبد اللّٰه ،محمد بن احمد بن ابی بكر بن فرح الأنصاری الخزرجی شمس الدين (المتوفى: 671هـ): الجامع لأحكام القرآن الشهيربتفسير القرطبی،جلد9،صفحہ154۔