کتاب: تفسیر سورۂ یوسف - صفحہ 84
اس قسم کی سازش وہ ہرگز نہ کرتے ، کیونکہ ان کو معلوم تھا کہ ہمارے باپ سے ہمارا کونسا عمل غائب اور پوشیدہ رہ سکتا ہے ؟ وہ ہر وقت حاضر وناظر ہیں ، اور پھر حضرت یعقوب (علیہ السلام) جو تقریبا چالیس سال تک پریشان رہے ۔ (دیکھئے مستدرک : ج : ٤: ص : ٣٩٦) " فقہی احکام سیروتفریح جائز مباح ہے اس آیت سے یہ بھی معلوم ہوا کہ جائز حدود کے اندر رہتے ہوئے کھیل کود اور سیروتفریح جائز مباح ہے صحیح احادیث سے بھی اس کا جواز معلوم ہوتا ہے شرط یہ ہے کہ اس کھیل کود میں شرعی حدود سے تجاوز نہ کیا جائے اور نہ کسی ناجائز فعل کو اس کے ساتھ ملایا جائے ۔ "لعب سے مراد خوشی ومسرت میں سے جو مباح ہے وہ ہوگا نہ کہ وہ ممنوع کھیل مراد ہے جو حق وسچ کی ضد ہے، اسی وجہ سے حضرت یعقوب (علیہ السلام) نے ان کے نلعب کے قول کو رد نہیں فرمایا۔ اسی سے نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا ارشاد : "فھلا بکرا تلا عبھاوتلاعبک "ہے۔ ( پس کیوں نہ باکرہ عورت کے ساتھ تو نے شادی کی تو اس کے ساتھ ملاعبت کرتا اور وہ تیرے ساتھ ملاعبت کرتی)" [1] یہ ترکیب؛"یرتع و یلعب " ( خوب کھائے پئے اور کھیلے)،پکنک منانے کی بڑی عمدہ اور خوبصورت تعبیر ہے۔ اور پکنک کی آج کی طرح اس دور میں بھی بڑی اہمیت تھی۔ سو برادران یوسف نے اپنی طے کردہ سکیم کے مطابق یوسف کو اپنے ساتھ لے جانے کیلئے بڑے خیر خواہانہ انداز میں اپنے باپ سے کہا کہ اباجان، یہ کیا بات ہے کہ آپ یوسف کے بارے میں ہم پر اعتماد نہیں کرتے ؟
[1] القرطبی،ابو عبد اللّٰه ،محمد بن احمد بن ابی بكر بن فرح الأنصاری الخزرجی شمس الدين (المتوفى: 671هـ): الجامع لأحكام القرآن الشهيربتفسير القرطبی،جلد9،صفحہ139۔