کتاب: تفسیر سورۂ یوسف - صفحہ 79
قرآن کا اسلوب خاص "وَعَادَةُ الْقُرْآنِ أَنْ لَا يَذْكُرَ إِلَّا اسْمَ الْمَقْصُودِ مِنَ الْقِصَّةِ دُونَ أَسْمَاءِ الَّذِينَ شَمَلَتْهُمْ، مِثْلَ قَوْلِهِ: وَقالَ رَجُلٌ مُؤْمِنٌ مِنْ آلِ فِرْعَوْنَ [سُورَة غَافِر: 28] ." [1] قرآن کریم کا طرز اور عادت ہے کہ قصہ میں شامل افراد کے ناموں کے علاوہ قصہ سے مقصود و مطلوب کا نام ذکر کرنے پر ہی اکتفاء کا جاتاہے جیسا کہ سورة مومن میں ہے :﴿ وَقالَ رَجُلٌ مُؤْمِنٌ مِنْ آلِ فِرْعَوْنَ﴾آل فرعون میں سے ایک مومن آدمی نے کہا (اس کا بھئ نام مذکور نہیں ہے۔) "پرانے زمانے کے کنویں کی ایک خاص قسم کو باؤلی کہا جاتا تھا اس کا منہ کھلا ہوتا تھا لیکن گہرائی میں یہ تدریجاً تنگ ہوتا جاتا تھا۔ پانی کی سطح کے قریب اس کی دیوار میں طاقچے سے بنائے جاتے تھے۔ اس طرح کی باؤلیاں پرانے زمانے میں قافلوں کے راستوں پر بنائی جاتی تھیں ۔ چناچہ اس مشورے پر عمل کی صورت میں قوی امکان تھا کہ کسی قافلے کا ادھر سے گزر ہوگا اور قافلے والے یوسف کو باؤلی سے نکال کر اپنے ساتھ لے جائیں گے۔ بڑے بھائی کے اس مشورے کا مقصد بظاہر یہ تھا کہ اس طرح کم از کم یوسف کی جان بچ جائے گی اور ہم بھی اس کے خون سے ہاتھ رنگنے کے جرم کے مرتکب نہیں ہوں گے۔ " [2] یوسف علیہ السلام کے بھائیوں کی چند عادات "محمد بن اسحاق نے لکھا ہے کہ برادران یوسف کی یہ حرکت مختلف جرائم کی حامل تھی، قطع رحم، باپ کی نافرمانی، بےگناہ بچے پر ظلم اور بےرحمی، امانت میں خیانت، وعدہ شکنی اور دروغ با فی اللہ نے ان کے تمام جرائم کو معاف فرما دیا، تاکہ کوئی اس کی رحمت سے ناامید نہ ہو میں کہتا ہوں شاید اس کا سبب یہ ہو کہ ان کو باپ سے بہت زیادہ محبت تھی
[1] محمد الطاهر بن محمد بن محمد الطاهر بن عاشور التونسي (المتوفى : 1393هـ):التحرير والتنوير «تحرير المعنى السديد وتنوير العقل الجديد من تفسير الكتاب المجيد»،جلد12،صفحہ225 الدار التونسية للنشر - تونس [2] ڈاکٹر اسرار احمد:تفسیر بیان القرآن۔