کتاب: تفسیر سورۂ یوسف - صفحہ 78
کے بعد تمہارا کام ٹھیک ہوجائے گا کہ جو کانٹا تمہارے دلوں میں چبھ رہا ہے وہ نکل جائے گا، اور باپ کی ساری توجہ تمہاری طرف مبذول ہوجائے گی جو کہ تمہارا اصل مقصد ہے، سو حضرت یوسف کے بھائیوں نے اپنی پریشانی کو دور کرنے اور یوسف کو راستے سے ہٹانے کیلئے یہ طریقہ سوچا اور اس کے لئے انہوں نے یہ سکیم بنائی۔ فقہی احکام اس کی یہ تفسیر کرناکہ ہر گناہ کی معافی توبہ سے ہوسکتی ہے چنانچہ توبہ کرکے پھر ساری عمر نیکی کرتے رہنااور کسی بندے پر اگر ظلم کیا ہے تو اس کی معافی صرف توبہ سے ہی ہوسکتی ہے جس طرح برادران یوسف،یوسف کو کنویں میں پھینکنے کے بعد نیک اور صالح بن گئے تھےحالانکہ انہوں نے یوسف علیہ السلام سے معافی نہیں مانگی تھی۔ اس آیت سے یہ معنی اخذ کرنا درست نہیں ہے۔ظالم جب تک مظلوم سےمعافی نہ مانگے اس کی معافی نا ممکن ہے۔ ﴿قَالَ قَائِلٌ مِنْهُمْ لَا تَقْتُلُوا يُوسُفَ وَأَلْقُوهُ فِي غَيَابَتِ الْجُبِّ يَلْتَقِطْهُ بَعْضُ السَّيَّارَةِ إِنْ كُنْتُمْ فَاعِلِينَ (10) ﴾ |10|(12ان میں سے ایک نے کہا یوسف کو قتل تو نہ کرو بلکہ اسے کسی اندھے کنوئیں (کی تہ) میں ڈال آؤ کہ اسے کوئی (آتا جاتا) قافلہ اٹھا لے جائے اگر تمہیں کرنا ہی ہے تو یوں کرو۔) یوسف علیہ السلام کےایک بھائی نے مشورہ دیااورکہا کہ اصل مسئلہ تو اس سے پیچھا چھڑانے کا ہے لہٰذا ضروری نہیں کہ قتل جیسا گناہ کر کے ہی یہ مقصد حاصل کیا جائے اس کے لیے کوئی دوسرا طریقہ بھی اختیار کیا جاسکتا ہےاوروہ یہ ہے کہ اسے کسی اندھے کنوئیں (کی تہ) میں ڈال آؤ کہ اسے کوئی (آتا جاتا) قافلہ اٹھا لے جائے۔چنانچہ انہوں نے اسی مشورہ پر عمل کیااور یوسف علیہ السلام کو ایک کنویں میں پھینک دیا۔