کتاب: تفسیر سورۂ یوسف - صفحہ 77
"یہ حقیقت ہے کہ ہمیشہ چھوٹے بچے والدین کی شفقت اور محبت زیادہ حاصل کرتے ہیں ، جو یوسف (علیہ السلام) کے بڑے بھائیوں میں سے ہر ایک اپنی اس عمر میں حاصل کرچکا تھا، پھر اولاد کی طبیعت کی سرکشی اور اطاعت ماں باپ کی محبت کھینچنے میں فرق کا باعث بن جاتی ہے۔ اسی طرح بیمار بچے اور پردیس میں رہنے والے بچے کی طرف والدین کی توجہ زیادہ ہوتی ہے، جیسا کہ اس قدیم عرب نے کہا تھا جس سے پوچھا گیا کہ تمہیں اپنے بیٹوں میں سب سے پیارا کون ہے ؟ تو اس نے جواب دیا : ” چھوٹا، یہاں تک کہ بڑا ہو، غائب یہاں تک کہ آجائے اور بیمار یہاں تک کہ تندرست ہوجائے۔ “ (شعراوی) اس لیے شریعت نے اولاد کے درمیان عطیے میں برابری اور بیویوں کے درمیان عدل کا حکم دیا ہے، دلی میلان اور محبت نہ بندے کے اختیار میں ہے اور نہ اس کے کم و بیش ہونے میں ماں باپ کا کوئی جرم ہے، نہ اولاد کا۔ یوسف (علیہ السلام) کے چھوٹے بھائی کا جرم بھی یہی تھا۔ " [1] یعقوب علیہ السلام نبی تھے ان سے اولاد کے حقوق کے حوالہ سے عدم مساوات کا سوچا بھی نہیں جا سکتا۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو دوسری ازواج مطہرات کےمقابلہ میں سیدہ عائشہ سے زیادہ محبت تھی،اس کے با وجود حقوق کی ادئیگی کے معاملہ میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم سب سے یکساں سلوک کرتے تھے۔ ﴿اقْتُلُوا يُوسُفَ أَوِ اطْرَحُوهُ أَرْضًا يَخْلُ لَكُمْ وَجْهُ أَبِيكُمْ وَتَكُونُوا مِنْ بَعْدِهِ قَوْمًا صَالِحِينَ (9)﴾( یوسف کو تو مار ہی ڈالو یا اسے کسی (نامعلوم) جگہ پھینک دو کہ تمہارے والد کا رخ صرف تمہاری طرف ہی ہو جائے۔ اس کے بعد تم نیک ہو جانا۔) یوسف سے نجات حاصل کرنے کے پروپیگنڈے پر بھائیوں میں مشاورت ( وَتَكُوْنُوْا مِنْ بَعْدِهٖ قَوْمًا صٰلِحِيْنَ )( اس کے بعد تم نیک ہو جانا)ا صلاح احوال کے معنی میں ہے۔ یعنی یہ کہ جب تم یوسف کو قتل کردو گے، یا اس کو کسی دور افتادہ زمین میں ڈال دو گے، تو اس
[1] حافظ عبد السلام بھٹوی: تفسیر القرآن العظیم۔