کتاب: تفسیر سورۂ یوسف - صفحہ 75
سے مراد وہ لوگ ہیں جو اللہ کی آیات کو دیکھ کر نصیحت حاصل کرتے ہیں ۔ صاحب معالم نے ان عبرتوں کو خوب تفصیل سے لکھا ہے۔ “ ابن عاشور نے لکھا ہے کہ اہل عرب کی بلاغت کا یہ ایک اسلوب ہے کہ وہ متوجہ کرنے کے لیے سائل کا ذکر کرتے ہیں ۔ مراد اس بات کو سننے کا شوق دلانا ہوتا ہے، جیسا کہ فرمایا : ﴿ وَجَعَلَ فِيْهَا رَوَاسِيَ مِنْ فَوْقِهَا وَبٰرَكَ فِيْهَا وَقَدَّرَ فِيْهَآ اَقْوَاتَهَا فِيْٓ اَرْبَعَةِ اَيَّامٍ سَوَاءً لِّلسَّاىِٕلِيْنَ ﴾[ حٰآ السجدۃ : ١٠ ] ” اور اس نے اس میں اس کے اوپر سے گڑے ہوئے پہاڑ بنائے اور اس میں بہت برکت رکھی اور اس میں اس کی غذائیں اندازے کے ساتھ رکھیں ، چار دن میں ، اس حال میں کہ سوال کرنے والوں کے لیے برابر (جواب) ہے۔ “ اور جیسا کہ سموئل نے کہا
سَلِیْ إِنْ جَھِلْتِ النَّاسَ عَنَّا وَ عَنْھُمْ فَلَیْسَ سَوَاءً عَالِمٌ وَ جَھُوْلُ
” اے مخاطبہ ! اگر تجھے معلوم نہیں تو لوگوں سے ہمارے اور ان کے متعلق سوال کرلے، کیونکہ جاننے والا اور نہ جاننے والا برابر نہیں ہوتے۔ “
اور انیف بن زبان نے کہا ہے
فَلَمَّا الْتَقَیْنَا بَیَّنَ السَّیْفُ بَیْنَنَا لِسَاءِلَۃٍ عَنَّا حَفِیٍّ سُؤَالُھَا
” تو جب ہم آپس میں مقابل ہوئے تو تلوار نے ہمارے درمیان واضح فیصلہ کردیا، اس سوال کرنے والی کے لیے جس کا سوال بہت اصرار کے ساتھ تھا۔ “
عرب شاعر عموماً سوال کرنے والی عورتوں کا ذکر کرتے ہیں ، یہ قرآن کا اعجاز ہے کہ اس نے یہ انداز بدل کر سوال کرنے والیوں کے بجائے مردوں کو سوال کرنے والے قرار دے کر جواب دیا۔ (التحریر والتنویر) [1]
﴿إِذْ قَالُوا لَيُوسُفُ وَأَخُوهُ أَحَبُّ إِلَى أَبِينَا مِنَّا وَنَحْنُ عُصْبَةٌ إِنَّ أَبَانَا لَفِي ضَلَالٍ مُبِينٍ﴾
(جب کہ انہوں نے کہا کہ یوسف اور اس کا بھائی بہ نسبت ہمارے، باپ کو بہت زیاده پیارے ہیں حالانکہ ہم (طاقتور) جماعت ہیں کوئی شک نہیں کہ ہمارے ابا صریح غلطی میں ہیں ۔)
[1] حافظ عبد السلام بھٹوی:تفسیرالقرآن العظیم۔