کتاب: تفسیر سورۂ یوسف - صفحہ 74
دوسری طرف اللہ تعالیٰ کے انعامات اور اس کا اپنے کام پر غالب ہونے کا مظاہرہ ہے، یوسف (علیہ السلام) کا تمام دشمنوں ، حاسدوں اور مخالفوں کی خواہش کے برعکس اللہ تعالیٰ کے عطا کردہ کمالات علم و حکمت، اخلاص نیت، حسن عمل اور صبر و تقویٰ کی بدولت جیل اور غلامی سے نکل کر قرب شاہی اور حکومت کے وسیع اختیارات کا حصول ہے۔ جابر و ظالم بھائیوں کی ان کے سامنے بےبسی اور ان سے صدقے کے سوال پر مجبور ہونا ہے۔ پھر اس سارے عرصے میں یوسف (علیہ السلام) کا ہر زیادتی کرنے والے سے انتقام کے بجائے حسن سلوک، بےمثال صبر اور عفو و درگزر ہے اور آخر میں یوسف (علیہ السلام) کے خواب گیارہ ستاروں اور سورج و چاند کے ان کے سامنے سجدہ ریز ہونے کی تعبیر کا ظہور ہے اور اس تمام عظمت و رفعت کے باوجود یوسف (علیہ السلام) کا آخرت کی فکر میں اللہ تعالیٰ سے اسلام پر موت اور صالحین کے ساتھ ملانے کی دعا ہے۔ غرض ایک ایک بات اپنے اندر بہت سی نشانیاں اور عبرتیں رکھتی ہے۔ لِّلسَّاىِٕلِيْنَ : یہ سوال کرنے والے کون تھے، اشرف الحواشی میں ہے : ” منقول ہے کہ قریش نے یہود کے اشارے پر امتحان کی غرض سے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے یہ سوال کیا کہ ابراہیم (علیہ السلام) کا وطن شام تھا تو بنی اسرائیل مصر میں کیسے آباد ہوگئے، حتیٰ کہ موسیٰ (علیہ السلام) کے دور میں فرعون سے نجات حاصل کی ؟ اس پر یہ سورت اتری اور فرمایا کہ سوال کرنے والوں کے لیے اس قصہ میں بہت سی نشانیاں ہیں ۔ انھوں نے ایک بھائی پر حسد کیا تو آخر کار اسی کے محتاج ہوئے، اسی طرح یہود حسد کر رہے ہیں اور قریش نے آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو نکالا تو آخر کار آپ ہی کا عروج ہوا۔ (موضح) مگر یہ روایات اسرائیلی ہیں (اور مکہ میں یہود تھے بھی نہیں ، نہ اہل مکہ کا ان سے خاص رابطہ تھا) حافظ ابن کثیر (رض) نے ایسی کسی روایت کا ذکر نہیں کیا بلکہ اس کے بالمقابل دوسری ایک دو روایات بحوالہ ابن جریر بیان کی ہیں کہ صحابہ کے سوال پر یہ سورت نازل ہوئی۔ (مگر ابن عباس (رض) سے منقول یہ روایت بھی منقطع ہے، کیونکہ ابن عباس (رض) سے روایت کرنے والے راوی عمرو بن قیس نے انہیں پایا ہی نہیں۔ دیکھیے الاستیعاب فی بیان الاسباب) بہر حال اگر اسرائیلی روایات کو معتبر مان لیا جائے تو نشانیوں سے مراد آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی نبوت کی نشانیاں ہیں اور پوچھنے والوں سے مراد یہودی یا کفار مکہ ہیں اور اگر ان کا اعتبار نہ کیا جائے تو آیات سے مراد وہ عبرتیں ہیں جو یوسف (علیہ السلام) کے قصے میں پائی جاتی ہیں اور پوچھنے والوں