کتاب: تفسیر سورۂ یوسف - صفحہ 73
غرض سے پڑھا جائے، تاکہ سبق ملے، اور راہ حق نصیب ہو، وباللہ التوفیق ۔ ۔ ۔ مفسر قاشانی کہتے ہیں کہ اس واقعہ سے تین اہم باتیں سمجھ میں آتی ہیں : پہلی بات تو یہ کہ نبوت و رسالت کا تعلق محض اللہ کی مشیت سے ہے، وہ جسے چاہتا ہے یہ نعمت عطا کرتا ہے، دوسری یہ کہ اللہ تعالیٰ اگر کسی کو کوئی نعمت دینا چاہے تو کوئی اسے روک نہیں سکتا، اور اللہ تعالیٰ جس کی حفاظت کرے اس کا کوئی ایک بال بھی بیکا نہیں کرسکتا، اور تیسری بات یہ کہ شیطان کے مکرو فریب سے انبیاء بھی محفوظ نہیں ہوتے ہیں ، اسی لیے وہ ہر وقت اس کے نرغوں سے بچنے کے لیے اللہ سے دعا کرتے رہتے ہیں ۔" [1] " مکہ کے آخری دنوں میں جب کہ ابوطالب اور حضرت خدیجہ کا انتقال ہوچکا تھا مکہ کے لوگوں نے آپ کی مخالفت تیز تر کردی۔ اس زمانہ میں مکہ کے بعض لوگوں نے آپ سے حضرت یوسف کا حال پوچھا جن کا نام انہوں نے اسفار کے دوران بعض یہودیوں سے سنا تھا۔ یہ سوال اگرچہ انہوں نے تمسخر کی غرض سے کیا تھا مگر اللہ تعالیٰ نے اس کو خود پوچھنے والوں کی طرف لوٹا دیا اس قصہ کے ذریعہ بالواسطہ طور پر انہیں بتایا گیا کہ تم لوگ وہ ہو جن کے حصہ میں یوسف کے بھائیوں کا کردار آیا ہے۔ جب کہ پیغمبر کا انجام خدا کی رحمت سے وہ ہونے والا ہے جو یوسف کا مصر میں ہوا۔" [2] لَقَدْ كَانَ فِيْ يُوْسُفَ ۔۔ : یہاں سے یوسف (علیہ السلام) کے قصے کی تفصیل شروع ہوتی ہے۔ ” اٰيٰتٌ“ ” آیَۃٌ“ کی جمع ہے۔ یہاں آیات سے مراد وہ عبرتیں ، نصیحتیں اور اللہ تعالیٰ کی قدرت کی عظیم نشانیاں ہیں جو اس واقعہ میں ذکر ہوئی ہیں ، چونکہ وہ بہت سی ہیں اور بہت سے لوگوں سے متعلق ہیں ، مثلاً ایک طرف بھائیوں کی نفرت، حسد، بدگمانی، اس زمانے کے لوگوں کے حالات، آزاد لوگوں کو غلام بنا لینا، ان کا انداز حکومت، ان کے قوانین، شیطان کا بہکانا، اپنوں کے ظلم، پیاروں سے جدائی، بےوطنی، غلامی کے صدمے، حسن کی وجہ سے آنے والی آزمائشیں ، عزیز کی بیوی کے عشق کی شورش اور طغیانی اور یوسف (علیہ السلام) کی عفت کا امتحان، پھر قید خانے کی آزمائش ہے،
[1] محمد لقمان سلفی:تفسیر تیسیر الرحمان لبیان القرآن۔ [2] علامہ وحید الدین خان: تفسیر تذکیر القرآن