کتاب: تفسیر سورۂ یوسف - صفحہ 72
برادرانِ یوسف انبیاء نہیں تھے "یہ حضرت یعقوب عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کے بارہ صاحب زادے ہیں انہیں کو اسباط کہتے ہیں ۔" [1] "علمائے مفسرین نے پہلے تو حضرت یوسف (علیہ السلام) کے بھائیوں سے جو کچھ خطائیں ہوئی ہیں ان کو گنا ہے کہ قطعی رحم، نبی باپ کی نافرمانی ،معصوم کو غلام بنا کر بیچنا وغیرہ اور پھر اس میں بڑی بحث کی ہے کہ حضرت یوسف (علیہ السلام) کے بھائی تو نبی تھے ان سے اس طرح کی خطائیں کیوں کر ہوئیں پھر بعضے مفسروں نے یہ جواب دیا ہے کہ جس وقت یہ خطائیں ان سے ہوئیں اس وقت وہ نبی نہیں تھے اس کے بعد ان کو نبوت ہوئی ہے لیکن صحیح قول یہ ہے کہ یوسف (علیہ السلام) کے بھائیوں کے حق میں اسباط کا لفظ جو آیا ہے اس سے مفسرین نے ان کی نبوت نکالی ہے لیکن جس طرح عرب کی قوم کی شاخوں کو عام طور پر قبائل کہتے ہیں اسی طرح سے حضرت یعقوب کی اولاد کی شاخوں کو عام طور پر اسباط کہتے ہیں کسی خاص شاخ کو اس لفظ سے مراد لینا دلیل خاص کا محتاج ہے۔" [2] یہی رائے زیادہ موزون معلوم ہوتی ہے کہ برادران یوسف انبیاء نہیں تھے۔ واللہ اعلم با لصواب۔ اس واقعہ میں بہت سی عبرتیں ، نصیحتیں اور حکمتیں "یوسف (علیہ السلام) اور ان کے بھائیوں کے اس قصہ کے بارے میں اہل مکہ کچھ بھی نہیں جانتے تھے اور نہ نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو اس کی کوئی خبر تھی۔ اللہ تعالیٰ نے آپ کو خبر دینے کے لیے قرآن میں یہ سورت نازل فرمائی اور آپ نے پھر اہل مکہ کے سامنے اس کی تلاوت کی تو وہاں کے لوگوں کو اس کا علم ہوا۔" [3] " حضرت یوسف عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کی داستان حقیقت میں سائلین کے لیے کئی نشانیاں ہیں ، پس حضرت یوسف سے متعلق اس قصے کو محض داستاں سرائی کیلئے نہ پڑھا جائے۔ بلکہ عبرت و بصیرت کی
[1] ابو صالح محمد قاسم القادری:تفسیر صراط الجنان۔ [2] حافظ محمد سید احمد حسن :احسن التفاسیر،جلد3،151۔ [3] ابو نعمان سیف اللہ خالد:تفسیر دعوة القرآن۔