کتاب: تفسیر سورۂ یوسف - صفحہ 70
وقوله : أَنْ تَضِلَّ إِحْداهُما[ البقرة/ 282] ، أي : تنسی، وذلک من النّسيان الموضوع عن الإنسان ." [1] (جب کہ ضلال کے معنی سیدھی راہ سے ہٹ جانا کے ہیں خواہ وہ ہٹنا عمدا ہو یا سہوا تھوڑا ہو یا زیادہ تو جس سے بھی کسی قسم کی غلطی سرزد ہوگی اس کے متعلق ہم ضلالت کا لفظ استعمال کرسکتے ہیں یہی وجہ ہے کہ انبیاء اور کفار دونوں کی طرف ضلالت کی نسبت کی گئی ہے گو ان دونوں قسم کی ضلالت میں بون بعید پایا جاتا ہے ۔ دیکھئے :۔ ۔ ۔ حضرت یعقوب (علیہ السلام) کے بارے میں ان کی اولاد کا کہنا: ﴿ إِنَّكَ لَفِي ضَلالِكَ الْقَدِيمِ ﴾[يوسف/ 95] کہ آپ اسی پرانی غلطی میں مبتلا ) ہیں ۔ یا یہ کہنا : ﴿ إِنَّ أَبانا لَفِي ضَلالٍ مُبِينٍ﴾ [يوسف/ 8] کچھ شک نہیں کہ اباصریح غلطی پر ہیں ۔ تو ان آیات میں ضلال سے مراد یہ ہے کہ وہ یوسف ((علیہ السلام)) کی محبت اور ان کے اشتیاق میں سرگردان ہیں اسی طرح آیت کریمہ :﴿ قَدْ شَغَفَها حُبًّا إِنَّا لَنَراها فِي ضَلالٍ مُبِينٍ﴾ [يوسف/ 30] اس کی محبت اس کے دل میں گھر کرگئی ہے ہم دیکھتے ہیں کہ وہ صریح گمراہی میں ہیں ۔ میں بھی ضلال مبین سے والہانہ محبت مراد ہے ۔ اور آیت کریمہ :﴿إِذاً وَأَنَا مِنَ الضَّالِّينَ﴾ [ الشعراء/ 20] اور میں خطا کاروں میں تھا ۔ میں موسیٰ ٰ (علیہ السلام) نے اپنے ضال ہونے کا اعتراف کرکے اشارہ کیا ہے کہ قتل نفس کا ارتکاب مجھ سے سہوا ہوا تھا ۔ اور آیت :﴿ أَنْ تَضِلَّ إِحْداهُما﴾ [ البقرة/ 282] اور اگر ان میں سے ایک بھول جائے گی ۔ میں تضل کے معنی بھول جانا کے ہیں اور یہی وہ نسیان ہے جسے عفو قرار دیا گیا ہے ۔) تفسیر وبیان(آیات از 7تا10) ﴿لَقَدْ كَانَ فِي يُوسُفَ وَإِخْوَتِهِ آيَاتٌ لِلسَّائِلِينَ ﴾ (یقیناً یوسف اور اس کے بھائیوں میں دریافت کرنے والوں کے لئے (بڑی) نشانیاں ہیں ۔)
[1] أبو القاسم الحسين بن محمد المعروف بالراغب الأصفهانى (المتوفى: 502هـ): المفردات في غريب القرآن۔