کتاب: تفسیر سورۂ یوسف - صفحہ 62
وَتَظْهَرَ، كَمَا وَرَدَ فِي حَدِيثِ: "اسْتَعِينُوا عَلَى قَضَاءِ الْحَوَائِجِ بِكِتْمَانِهَا، فَإِنَّ كُلَّ ذِي نِعْمَةٍ مَحْسُودٌ" [1]،[2] (چناچہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی تعلیم بھی یہی ہے۔ فرماتے ہیں تم لوگ کوئی اچھا خواب دیکھو تو خیر اسے بیان کردو اور جو شخص کوئی برا خواب دیکھے تو جس کروٹ پر ہو وہ کروٹ بدل دے اور بائیں طرف تین مرتبہ تھتکار دے اور اس کی برائی سے اللہ کی پناہ طلب کرے اور کسی سے اس کا ذکر نہ کرے۔ اس صورت میں اسے وہ خواب کوئی نقصان نہ دے گا۔ مسند احمد وغیرہ کی حدیث میں ہے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) فرماتے ہیں خواب کی تعبیر جب تک نہ لی جائے وہ گویا پرند کے پاؤں پر ہے۔ ہاں جب اس کی تعبیر بیان ہوگئی پھر وہ ہوجاتا ہے۔ اسی سے یہ حکم بھی لیا جاسکتا ہے۔ کہ نعمت کو چھپانا چاہیے۔ جب تک کہ وہ ازخود اچھی طرح حاصل نہ ہوجائے اور ظاہر نہ ہوجائے، جیسے کہ ایک حدیث میں ہے۔ ضرورتوں کے پورا کرنے پر ان کی چھپانے سے بھی مدد لیا کرو کیونکہ ہر وہ شخص جسے کوئی نعمت ملے لوگ اس کے حسد کے درپے ہوجاتے ہیں ۔)
[1] ابن کثیر،أبو الفداء إسماعيل بن عمر بن كثير القرشي البصري ثم الدمشقي (المتوفى: 774هـ):تفسير القرآن العظيم،جلد4،صفحہ371،المحقق: سامي بن محمد سلامة،دار طيبة للنشر والتوزيع،الطبعة: الثانية 1420هـ - 1999 م۔ [2] (5) رواه العقيلي في الضعفاء (2/109) وابن عدي في الكامل (3/404) وأبو نعيم في الحلية (6/96) من طريق سعيد بن سالم العطار عن ثَوْرُ بْنُ يَزِيدَ، عَنْ خَالِدِ بْنِ مَعْدَانَ عن معاذ به مرفوعا، وأورده ابن الجوزي في الموضوعات (2/165) وقال أبو حاتم في العلل (2/258) : "حديث منكر". وآفته سعيد بن سلام العطار فهو كذاب.( سامي بن محمد سلامة:تعلیق تفسير القرآن العظيم از ابن کثیر،أبو الفداء إسماعيل بن عمر بن كثير القرشي البصري ثم الدمشقي (المتوفى: 774هـ)،جلد4،صفحہ371۔