کتاب: تفسیر سورۂ یوسف - صفحہ 60
نے اس روایت میں جس کو انہوں نے حضرت عطاء بن یسار (رض) سے نقل کیا ہے یہ الفاظ بھی نقل کئے ہیں (وہ اچھے خواب) جن کو مسلمان آدمی (اپنے لئے) دیکھتا ہے یا اس کے بارے میں کوئی اور شخص دیکھے۔ " تشریح " مبشرات " (میم کے پیش اور باء کے زبر کے ساتھ) بشارت سے مشتق ہے جس کے معنی خوش خبری کے ہیں اعرابی میں لفظ " بشارت " کا استعمال عام طور پر خیر کے سیاق میں ہوتا ہے لیکن کبھی شر کے ساتھ بھی اس کو استعمال کرلیا جاتا ہے اسی طرح رویا کا اطلاق عام طور پر اچھے خواب پر ہوتا ہے اور برے خواب کو حلم کہتے ہیں لیکن یہ فرق و تخصیص شرعی نقطہ نظر سے ہے ویسے لغت کے اعتبار سے رؤیا مطلق خواب کو کہتے ہیں ، چناچہ یہاں حدیث میں بھی لفظ رؤیا مطلق خواب کے معنی میں استعمال کیا گیا ہے اور اگر یہ کہا جائے کہ رؤیاء سے اچھا خواب مراد ہے تو اس صورت میں کہا جائے گا کہ لفظ " صالحہ " کا ذکر محض لفظ رؤیا کی وضاحت و تشریح کے لئے ہے یا یہ کہ " صالحہ " اصل میں صادقہ کے معنی میں ہے کہ رؤیا صالحہ سے مراد وہ اچھا خواب ہے جو سچا یعنی واقع کے مطابق ہو۔ پہلے معنی میں یعنی لفظ صالحہ کو رؤیا کی وضاحت و تشریح قرار دینا زیادہ صحیح اور مبشرات کے معنی کے موافق ہے کیونکہ اچھے خواب کا مطلب اچھی خبر ہے اور بشارت بھی کلیۃ یا عام طور پر دل و دماغ کو خوش کرنے والی ہی ہوتی ہے اگرچہ طیبی کے قول کے مطابق بشارت میں صدق کا بھی اعتبار ہونا ہے لیکن حدیث کا سیاق اس کا متقاضی ہے کہ دوسرے معنی صالحہ (بمعنی صادقہ) مراد لیا جائے کیونکہ حدیث میں خواب کو نبوت کا ایک جز کہا گیا ہے اور نبوت میں سچی خبر کا اعتبار ہے خواہ وہ خوش کرنے والی ہو یا ڈرانے والی ہو، اس صورت میں کہا جائے گا کہ لفظ مبشرات کا استعمال از راہ تغلیب یا یہ کہ " مبشرات " اپنے مطلق معنی یعنی " مخبرات " پر محمول ہے۔ " [1] اگر خواب میں کوئی مکروہ چیز دیکھے تو کیا کرے عَنْ أَبِي قَتَادَةَ عَنْ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَنَّهُ قَالَ الرُّؤْيَا مِنْ اللَّهِ وَالْحُلْمُ مِنْ الشَّيْطَانِ فَإِذَا رَأَی أَحَدُکُمْ شَيْئًا يَکْرَهُهُ فَلْيَنْفُثْ عَنْ يَسَارِهِ ثَلَاثَ مَرَّاتٍ
[1] مشکوۃ شریف:جلد چہارم:حدیث نمبر 540 ۔