کتاب: تفسیر سورۂ یوسف - صفحہ 58
کہ سونے والا اپنے خواب میں جن باتوں کا ادراک و احساس کرتا ہے اور جن چیزوں کو اس کا نور بصیرت دیکھتا ہے وہ دراصل وقوع پذیر ہونے والی چیزوں کی علامت و اشارہ ہوتا ہے اور یہی علامت و اشارہ تعبیر کی بنیاد بنتا ہے۔ کبھی یہ علامت و اشارہ اتنا غیر واضح ہوتا ہے کہ اس کو عارفین و معبرین ہی سمجھ پاتے ہیں اور کبھی اتنا واضح ہوتا ہے کہ عام انسانی ذہن بھی اس کی مراد پا لیتا ہے۔ جیسا کہ بادل کو دیکھ کر بارش کے وجود کی طرف ذہن خود بخود چلا جاتا ہے۔ " [1] مومن کا خواب نبوت کا چھیالیسواں حصہ ہے عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ قَالَ قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ إِذَا اقْتَرَبَ الزَّمَانُ لَمْ تَکَدْ رُؤْيَا الْمُؤْمِنِ تَکْذِبُ وَأَصْدَقُهُمْ رُؤْيَا أَصْدَقُهُمْ حَدِيثًا وَرُؤْيَا الْمُسْلِمِ جُزْئٌ مِنْ سِتَّةٍ وَأَرْبَعِينَ جُزْئًا مِنْ النُّبُوَّةِ وَالرُّؤْيَا ثَلَاثٌ فَالرُّؤْيَا الصَّالِحَةُ بُشْرَی مِنْ اللَّهِ وَالرُّؤْيَا مِنْ تَحْزِينِ الشَّيْطَانِ وَالرُّؤْيَا مِمَّا يُحَدِّثُ بِهَا الرَّجُلُ نَفْسَهُ فَإِذَا رَأَی أَحَدُکُمْ مَا يَکْرَهُ فَلْيَقُمْ فَلْيَتْفُلْ وَلَا يُحَدِّثْ بِهَا النَّاسَ قَالَ وَأُحِبُّ الْقَيْدَ فِي النَّوْمِ وَأَکْرَهُ الْغُلَّ الْقَيْدُ ثَبَاتٌ فِي الدِّينِ قَالَ وَهَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ ( حضرت ابوہریرہ (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا جب زمانہ قریب ہوجائے گا تو مومن کا خواب جھوٹا نہیں ہوگا اور سچا خواب اس کا ہوتا ہے جو خود سچا ہو اور مسلمان کا خواب نبوت کا چھیالیس حصوں میں سے ایک ہے پھر خواب تین قسم کے ہوتے ہیں پس ایک تو اچھے خواب جو اللہ تعالیٰ کی طرف سے بشارت ہوتے ہیں دوسرے وہ جو شیطان کی طرف سے غم میں مبتلا کرنے کے لئے ہوتے ہیں اور تیسرے وہ خواب جو انسان اپنے آپ سے باتیں کرتا ہے وہی نیند میں متصور ہوجاتے ہیں پس اگر تم میں سے کوئی خواب میں ایسی چیز دیکھے جسے وہ پسند نہ کرتا ہو تو کھڑا ہو کر تھوک دے اور لوگوں کے سامنے بیان نہ کرے پھر آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا کہ
[1] مشکوۃ شریف:جلد چہارم:حدیث نمبر 539 ۔