کتاب: تفسیر سورۂ یوسف - صفحہ 57
الْحَرْثَانِ «1» وَالطَّارِقُ وَالذَّيَّالُ وَقَابِسٌ وَالْمُصْبِحُ «2» وَالضَّرُوحُ «3» وَذُو الْكَنَفَاتِ وَذُو الْقَرْعِ وَالْفَلِيقُ وَوَثَّابٌ وَالْعَمُودَانِ، رَآهَا يُوسُفُ عَلَيْهِ السَّلَامُ تَسْجُدُ لَهُ." (سہیلی نے کہا : ان ستاروں کے اسماء کا ذکر مستند روایت میں آیا ہے جس کو حرث بن أبی أسامہ نے روایت کیا ہے انہوں نے کہا : بستانہ۔ جو کہ اہل کتاب میں سے ایک آدمی ہے۔ آیا، اس نے نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے ان گیارہ ستاروں کے بارے میں پوچھا جو حضرت یوسف (علیہ السلام) نے دیکھے تھے تو آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : ” حرثان، طارق، قابس، مصبح، ضروح، ذوالکنفات، ذوالقرع، فلیق، وثاب اور عمودان۔ ان کو حضرت یوسف (علیہ السلام) نے اپنے آپ کو سجدہ کرتے ہوئے دیکھا ۔‘‘)[1] خواب کا معنی اور حقیقت خواب " کے معنی ہیں وہ بات جو انسان نیند میں دیکھے " محققین " کہتے ہیں کہ خواب تین طرح کے ہوتے ہیں ایک تو محض خیال کہ دن بھر انسان کے دماغ اور ذہن پر جو باتیں چھائی رہتی ہیں ، وہ خواب میں مشکل ہو کر نمودار ہوجاتی ہیں ، دوسری طرح کا خواب وہ ہے جو شیطانی اثرات کا عکاس ہوتا ہے جیسا کہ عام طور پر ڈراؤ نے خواب نظر آیا کرتے ہیں اور تیسری طرح کا خواب وہ ہے جو منجانب اللہ بشارت اور بہتری کو ظاہر کرتا ہے، خواب کی یہی تیسری قسم " رویاء صالحہ " کہلاتی ہے اور اس کی حقیقت علماء اہل سنت کے نزدیک یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ سونے والے کے دل میں علوم معرفت اور ادراکات و احسان کا نور پیدا کردیتا ہے، جیسا کہ وہ جاگنے والے کے دل کو علوم و معرفت اور ادرکات و احساسات کی روشنی سے منور کرتا ہے۔ اور اللہ تعالیٰ بلا شک و شبہ اس پر قادر ہے، کیونکہ نہ تو بیداری قلب انسانی میں نور بصیرت کے پیدا ہونے کا ذریعہ ہے اور نہ نیند اس سے مانع۔ واضح رہے
[1] القرطبی،ابو عبد اللّٰه ،محمد بن احمد بن ابی بكر بن فرح الأنصاری الخزرجی شمس الدين (المتوفى: 671ھ): الجامع لأحكام القرآن الشهيربتفسير القرطبی،جلد9،صفحہ121۔