کتاب: تفسیر سورۂ یوسف - صفحہ 55
(3) کسی چیز کے متعلق تفکر اور اندیشہ محسوس کرنا جیسے فرمایا :﴿ إِنِّي أَرى ما لا تَرَوْنَ ﴾ [ الأنفال/ 48] میں دیکھتا ہوں جو تم نہیں دیکھتے (4) عقل وبصیرت سے کسی چیز کا ادارک کرنا جیسے فرمایا : ﴿ما كَذَبَ الْفُؤادُ ما رَأى﴾ [ النجم/ 11] پیغمبر نے جو دیکھا تھا اس کے دل نے اس میں کوئی جھوٹ نہیں ملایا ۔ ) ان آیات (4تا6)میں استعمال ہونے والےبعض الفاظ وتراکیب کی بلاغی معنویت: ﴿إِنِّي رَأَيْتُ أَحَدَ عَشَرَ كَوْكَباً وَالشَّمْسَ وَالْقَمَرَ.. ﴾فيها استعارة لأن الكواكب والمذكور معها مما لا يعقل، فكان الأصل أن يقال: ساجدة، فلما وصفها بصفات العقلاء وهو السجود، أطلق عليها فعل من يعقل على طريق الاستعارة.كَما أَتَمَّها عَلى أَبَوَيْكَ تشبيه مرسل مجمل. [1] ﴿إِنِّي رَأَيْتُ أَحَدَ عَشَرَ كَوْكَباً وَالشَّمْسَ وَالْقَمَرَ.. ﴾( میں نے گیاره ستاروں کو اور سورج چاند کو دیکھا کہ وه سب مجھے سجده کر رہے ہیں ۔)ا س عبارت میں استعارہ ہے،کیونکہ ستارے اور جو کچھ ان کے ساتھ مذکور ہے(سورج اور چاند) غیر ذوی العقول ہیں اور غیر ذوی العقول کے لیے واحد مؤنث غائب کا صیغہ 'ساجدة' آتا ہے جبکہ یہاں 'ساجدین' آیا ہے یاد رہے کہ عربی زبان میں یہ اسلوب ذوی العقول کے لیے استعمال کیا جاتاہے۔چونکہ سجدہ ذوی العقول کی صفت ہے اس لیے یہاں کواکب،سورج اور چاند جو کہ غیر ذوی العقول ہیں کے ساتھ ذوی العقول کی طرح کا معاملہ کیاگیاہے۔ ﴿ كَما أَتَمَّها عَلى أَبَوَيْكَ ﴾تشبیہ مرسل مجمل ہے۔)
[1] ڈاکٹر وہہ بن مصطفى الزحيلي: التفسير المنير في العقيدة والشريعة والمنهج،جلد12،صفحہ204۔