کتاب: تفسیر سورۂ یوسف - صفحہ 52
وَإِخْوَتِهِ، وَامْرَأَةِ الْعَزِيزِ، قِيلَ: وَالْمَلِكُ أَيْضًا أَسْلَمَ بِيُوسُفَ وَحَسُنَ إِسْلَامُهُ، وَمُسْتَعْبِرُ الرُّؤْيَا السَّاقِي، وَالشَّاهِدُ فِيمَا يُقَالُ: فَمَا كَانَ أَمْرُ الْجَمِيعِ إلا إلى خير. [1] ( علماء کا اس میں اختلاف ہے کہ اس سورت کو باقی تمام قصص میں سے احسن القصص کیوں کہا گیا ؟ ایک قول یہ ہے : کیونکہ قرآن میں کوئی ایسا قصہ نہیں جس میں وہ عبرتیں اور حکمتیں ہوں جو اس قصہ میں ہیں ۔ اور اس کا بیان اس سورت کے آخر میں اللہ تعالیٰ کے اس ارشاد میں ہے:﴿ لَقَدْ كَانَ فِي قَصَصِهِمْ عِبْرَةٌ لِّأُولِي الْأَلْبَابِ﴾۔ ایک قول یہ ہے : حضرت یوسف (علیہ السلام) کے اپنے بھائیوں کو درگزر کرنے، ان کی اذیتوں پر آپ کے صبر، ان کا آپ کو کنویں میں لٹکانے کے بعد آپ کا ان کو معاف کرنا اور ان کو معاف کرنے میں آپ کے کرم کے حسن کی وجہ سے اللہ تعالیٰ نے اس کا نام احسن القصص رکھا ہے حتیٰ کے آپ نے فرمایا : لاتثریب علیکم الیوم۔ ایک قول یہ ہے : کیوں کہ اس میں انبیاء صالحین، فرشتوں ، شیاطین، جن، انسان، جانور، پرندے، بادشاہوں کی سیرت، مختلف ممالک، تاجر، علماء، جاہل، مردوں ، عورتوں اور ان کے حیلوں اور فریبوں کا ذکر ہے اور اس میں توحید، فقہ، بین الاقوامی قانون، خوابوں کی تعبیر، سیاست، معاشرت، تدبیر معاش کا ان تمام فوائد کا ذکر ہے جو دین ونیا کی اصلاح کرتے ہیں ۔ اور ایک قول یہ ہے : کیوں کہ اس میں حبیب، محبوب اور ان دونوں کی سیرت کا تذکرہ ہے۔ ایک قول یہ ہے کہ یہاں احسن بمعنی أعجب ہے۔ بعض اہل معانی نے کہا : احسن القصص اس وجہ سے ہے کہ ہر وہ شخص جس کا اس میں ذکر ہے اس کا انجام سعادت تھا۔ حضرت یوسف (علیہ السلام) کو دیکھو، آپ کے باپ، آپ کے بھائیوں اور عزیز مصر کی بیوی کو دیکھو۔ اور ایک قول یہ ہے : بادشاہ بھی حضرت یوسف (علیہ السلام) کی وجہ سے اسلام لایا اور اس کا اسلام عمدہ تھا۔ اور خوابوں کی تعبیر چاہنے والا ساقی اور گواہ ان تمام کا معاملہ بھلائی پر ہی مبنی تھا ۔)
[1] القرطبی،ابو عبد اللّٰه ،محمد بن احمد بن ابی بكر بن فرح الأنصاری الخزرجی شمس الدين (المتوفى: 671هـ): الجامع لأحكام القرآن الشهيربتفسير القرطبی،جلد9،صفحہ120۔