کتاب: تفسیر سورۂ یوسف - صفحہ 49
حروف مقطعات کا معنی ومفہوم اور غرض وغایت 'الر' حروف مقطعات میں سے ہیں " ان کا مقصود اصلی صرف اللہ جانتا ہے، اس بارے میں ایک قول یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ اس کے ذریعہ یہ ثابت کرنا چاہتا ہے کہ قرآن انہیں حرف سے مرکب ہے جن سے انسان کا کلام مرکب ہوتا ہے، لیکن اہل عرب میں سے کوئی بھی ایسا کلام نہ لاسکا، یہ اس بات کی قطعی دلیل ہے کہ قرآن اللہ کا کلام ہے۔" [1] کتاب روشن کی آیات جو اپنا مدعا واضح طور پر بیان کرے یہ اس کتاب روشن کی آیات ہیں جو اپنا مدعا واضح طور پر بیان کرتی ہے اور اس میں کوئی ابہام باقی نہیں رہنے دیتی۔ چونکہ یہود مدینہ نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی نبوت اور اس قرآن کریم کو مشکوک بنانے کے لیے یہ سوال کیا تھا اس لیے اللہ تعالی نے اس سورہ اور ان کے سوال کے جواب کے آغاز وابتدا میں ہی اس شک کو زائل کر نے کے لیے فرما دیا: ﴿الرٰ ۣ تِلْكَ اٰيٰتُ الْكِتٰبِ الْمُبِيْنِ ﴾ یعنی یہ اس کتاب روشن کی آیات ہیں جو اپنا مدعا جہاں واضح طور پر بیان کرتی ہے اور اس میں کوئی ابہام باقی نہیں رہنے دیتی وہاں یہ بلا کسی ریب و تردد منزل من اللہ بھی ہے۔قرآن کریم نے جو اس ترکیب : " تِلْكَ آياتُ " (یہ آیات) کے ساتھ قرآن کریم کی طرف اشارہ کیا ہے ۔اس کی تعظیم اور عظمت کی خاطر اسم اشارہ بعید کا استعمال کیاگیاہے۔ تا کہ قرآن کریم کی علو منزلت بیان ہو اور کمال میں بعد ِ منزلت عیاں ہو۔ ﴿ اِنَّآ اَنْزَلْنٰهُ قُرْءٰنًا عَرَبِيًّا لَّعَلَّكُمْ تَعْقِلُوْنَ ﴾ ( یقیناً ہم نے اس کو قرآن عربی نازل فرمایا ہے کہ تم سمجھ سکو)
[1] محمد لقمان سلفی: تیسیر الرحمان لبیان القرآن۔