کتاب: تفسیر سورۂ یوسف - صفحہ 47
وَتَفْصِيلَ كُلِّ شَيْءٍ [يوسف/ 111] ، وقوله: تِبْياناً لِكُلِّ شَيْءٍ [النحل/ 89] ، قُرْآناً عَرَبِيًّا غَيْرَ ذِي عِوَجٍ [الزمر/ 28] ، وَقُرْآناً فَرَقْناهُ لِتَقْرَأَهُ [الإسراء/ 106] ، فِي هذَا الْقُرْآنِ[الروم/ 58] ، وَقُرْآنَ الْفَجْرِ[الإسراء/ 78] أي:قراءته، لَقُرْآنٌ كَرِيمٌ [الواقعة/ 77] وأقرأت فلانا كذا. قال: سَنُقْرِئُكَ فَلا تَنْسى [الأعلى/ 6] ، وتَقَرَّأْتُ: تفهّمت، وقَارَأْتُهُ:دارسته." [1] (القرآن ۔ یہ اصل میں کفران ورحجان کی طرف مصدر ہے چناچہ فرمایا :﴿ إِنَّ عَلَيْنا جَمْعَهُ وَقُرْآنَهُ فَإِذا قَرَأْناهُ فَاتَّبِعْ قُرْآنَهُ﴾ [ القیامة/ 17- 18] اس کا جمع کرنا اور پڑھوانا ہمارے ذمہ جب ہم وحی پڑھا کریں تو تم ( اس کو سننا کرو ) اور پھر اسی طرح پڑھا کرو ۔ حضرت ابن عباس نے اس کا یہ ترجمہ کیا ہے کہ جب ہم قرآن تیرے سینہ میں جمع کردیں تو اس پر عمل کرو لیکن عرف میں یہ اس کتاب الہی کا نام ہے جو آنحضرت پر نازل ہوگئی ا وریہ اس کتاب کے لئے منزلہ علم بن چکا ہے جیسا کہ توراۃ اس کتاب الہی کو کہا جاتا ہے جو حضرت موسیٰ ٰ (علیہ السلام) پر نازل ہوئی ۔ اور انجیل اس کتاب کو کہا جاتا ہے جو حضرت عیسیٰ پر نازل کی گئی ۔ بعض علماء نے قرآن کی وجہ تسمیہ یہ بھی بیان کی ہے کہ قرآن چونکہ تمام کتب سماویہ کے ثمرہ کو اپنے اندر جمع کئے ہوئے ہے بلکہ تمام علوم کے ماحصل کو اپنے اندر سمیٹے ہوئے ہے اس لئے اس کا نام قرآن رکھا گیا ہے جیسا کہ آیت : وَتَفْصِيلَ كُلِّ شَيْءٍ [يوسف/ 111] اور ہر چیز کی تفصیل کرنے والا ۔ ۔ ۔) لفظ'عربی'کی وضاحت اور تحقیق "والعَرَبِيُّ: المفصح، ۔ ۔ ۔ والعَرَبيُّ: الفصيح البيّن من الكلام، قال تعالى:قُرْآناً عَرَبِيًّا[يوسف/ 2] ، وقوله: بِلِسانٍ عَرَبِيٍّ مُبِينٍ [الشعراء/ 195] ، فُصِّلَتْ آياتُهُ قُرْآناً عَرَبِيًّا [فصلت/ 3] ، حُكْماً عَرَبِيًّا [الرعد/ 37] " [2]
[1] أبو القاسم الحسين بن محمد المعروف بالراغب الأصفهانى (المتوفى: 502هـ): المفردات في غريب القرآن،صفحہ668، 669۔ [2] أبو القاسم الحسين بن محمد المعروف بالراغب الأصفهانى (المتوفى: 502هـ): المفردات في غريب القرآن،صفحہ557۔