کتاب: تفسیر سورۂ یوسف - صفحہ 45
الْكِتابِ أَنْ تُنَزِّلَ عَلَيْهِمْ كِتاباً مِنَ السَّماءِ ﴾ [ النساء/ 153]( اے محمد) اہل کتاب تم سے درخواست کرتے ہیں ۔ کہ تم ان پر ایک لکھی ہوئی کتاب آسمان سے اتار لاؤ ۔ میں ، ، کتاب ، ، سے وہ صحیفہ مراد ہے جس میں کچھ لکھا ہوا ہو ۔) لفظ' انزلنا'کی وضاحت اور تحقیق "النُّزُولُ في الأصل هو انحِطَاطٌ من عُلْوّ.يقال: نَزَلَ عن دابَّته، ونَزَلَ في مكان كذا: حَطَّ رَحْلَهُ فيه، وأَنْزَلَهُ غيرُهُ. قال تعالى: أَنْزِلْنِي مُنْزَلًا مُبارَكاً وَأَنْتَ خَيْرُ الْمُنْزِلِينَ[المؤمنون/ 29] ونَزَلَ بكذا، وأَنْزَلَهُ بمعنًى، وإِنْزَالُ اللّٰه تعالى نِعَمَهُ ونِقَمَهُ على الخَلْق، وإعطاؤُهُم إيّاها، وذلك إمّا بإنزال الشيء نفسه كإنزال القرآن، وإمّا بإنزال أسبابه والهداية إليه، كإنزال الحديد واللّباس ۔ ۔ ۔ والفَرْقُ بَيْنَ الإِنْزَالِ والتَّنْزِيلِ في وَصْفِ القُرآنِ والملائكةِ أنّ التَّنْزِيل يختصّ بالموضع الذي يُشِيرُ إليه إنزالُهُ مفرَّقاً، ومرَّةً بعد أُخْرَى، والإنزالُ عَامٌّ، فممَّا ذُكِرَ فيه التَّنزيلُ قولُه: نَزَلَ بِهِ الرُّوحُ الْأَمِينُ[الشعراء/ 193]" [1] (اصل میں اس کے معنی بلند جگہ سے نیچے اترنا کے ہیں چناچہ محاورہ ہے : ۔ نزل عن دابۃ وہ سواری سے اتر پڑا ۔ نزل فی مکان کذا کسی جگہ پر ٹھہر نا انزل وافعال ) اتارنا قرآن میں ہے ۔ عذاب کے متعلق انزال کا لفظ استعمال ہوا ہے قرآن اور فرشتوں کے نازل کرنے کے متعلق انزال اور تنزیل دونوں لفظ استعمال ہوئے ہیں ان دونوں میں معنوی فرق یہ ہے کہ تنزیل کے معنی ایک چیز کو مرۃ بعد اخریٰ اور متفرق طور نازل کرنے کے ہوتے ہیں ۔ اور انزال کا لفظ عام ہے جو ایک ہی دفعہ مکمل طور کیس چیز نازل کرنے پر بھی بولا جاتا ہے چناچہ وہ آیات ملا حضہ ہو جہاں تنزیل لا لفظ استعمال ہوا ہے ۔ نَزَلَ بِهِ الرُّوحُ الْأَمِينُ [ الشعراء/ 193] اس کو امانت دار فر شتہ لے کر اترا ۔ ایک قرات میں نزل ہے ۔ وَنَزَّلْناهُ تَنْزِيلًا[ الإسراء/ 106] اور
[1] أبو القاسم الحسين بن محمد المعروف بالراغب الأصفهانى (المتوفى: 502هـ): المفردات في غريب القرآن،صفحہ799۔