کتاب: تفسیر سورۂ یوسف - صفحہ 42
٭ یوسف تھوڑی دور کنوئیں میں پڑا ہے ،،خوشبو نہیں آنے دی اگر خوشبو آ گئ تو باپ ہے رہ نہیں سکے گا ،، جا کر نکلوا لے گا ! جبکہ بادشاہی کے لئے سفر اسی کنوئیں سے لکھا گیا تھا۔ ٭ اگر ان سارے امتحانی مراحل کی بابت یعقوب کو مطلع کر دیتا تو بھی اخلاقی طور پہ بہت برا لگتا ہے کہ ایک باپ اپنے بیٹے کو بادشاہ بنانے کے لئے اسے کنوئیں میں ڈال کر درخت کے پیچھے سے جھانک جھانک کے دیکھ رہا ہے کہ قافلے والوں نے اٹھایا ہے یا نہیں ! لہذا سارا انتظام اپنے ہاتھ میں رکھا ہے۔ ٭ یوسف کے بھائیوں کو بھی پتہ نہیں تھا کہ اس کنوئیں میں گرانا یوسف کو بادشاہ بنانے کی طرف ایک زینہ ہے ۔اگر انہیں پتہ ہوتا تو ان یہ رویہ نا ہوتا۔ ٭ یوسف عزیز کے گھر گئے تو نعمتوں بھرے ماحول سے اٹھا کر جیل میں ڈال دیا چنانچہ سیدنا یوسف اس آیت کا مصداق ٹھہرے : ﴿ إِنَّ مَعَ الْعُسْرِ يُسْرًا﴾ ٭ جیل کے ساتھیوں کی تعبیر بتائی تو بچ جانے والے سے کہا کہ میرے کیس کا ذکر بادشاہ کے دربار میں کرنا،،مگر مناسب وقت تک یوسف کو جیل میں رکھنے کی اسکیم کے تحت شیطان نے اسے بھلا دیا یوں شیطان بھی اللہ خالق کائنات کی اسکیم کو نہ سمجھ سکا اور بطورِ ٹول استعمال ہو گیا ،،اگر اس وقت یوسف علیہ السلام کا ذکر ہو جاتا تو یوسف سوالی ہوتے اور رب کو یہ پسند نہیں تھا ،، اس کی اسکیم میں بادشاہ کو سوالی بن کر آنا تھا ، اور پھر بادشاہ کو خواب دکھا کر سوالی بنایا اور یوسف علیہ السلام کی تعبیر نے ان کی عقل و دانش کا سکہ جما دیا ،، بادشاہ نے بلایا تو فرمایا میں : این آر او " کے تحت باہر نہیں آؤں گا جب تک عورتوں والے کیس میں میری بے گناہی ثابت نہ ہو جائے ،،عورتیں بلوائی گئیں ،، سب نے یوسف کی پاکدامنی کی گواہی دی اور مدعیہ عورت نے بھی جھوٹ کا اعتراف کر کے کہہ دیا کہ:﴿ الْآنَ حَصْحَصَ الْحَقُّ أَنَا رَاوَدْتُهُ عَنْ نَفْسِهِ وَإِنَّهُ لَمِنَ الصَّادِقِينَ﴾ ٭ وہی قحط کا خواب جو بادشاہ کو یوسف کے پاس لایا تھا ،، وہی قحط ہانک کے یوسف کے بھائیوں کو بھی ان کے دربار میں لے آیا ،، اور دکھا دیا کہ یہ وہ بےبس معصوم بچہ ہے جسے تمہارے حسد نے بادشاہ بنا دیا :" آپ کہہ دیجئے اے اللہ! اے تمام جہان کے مالک! تو جسے چاہے بادشاہی