کتاب: تفسیر سورۂ یوسف - صفحہ 40
رَبِّي لَطِيفٌ لِمَا يَشَاءُ إِنَّهُ هُوَ الْعَلِيمُ الْحَكِيمُ )﴾ [1] ( میرا رب جو چاہے اس کے لئے بہترین تدبیر کرنے والا ہے۔ اور وه بہت علم وحکمت والا ہے۔) یوسف علیہ السلام کو جو عروج اللہ تعالی نے عطا فرما یا اس یہ واضح ہوتا کہ ہر مظلومیت نے بہرحال آخرکار ختم ہوجانا ہوتا ہے، اور ہر اندھیرے کے بعد روشنی نے آنا ہوتا ہے اور ہر تنگی کے بعد آسانی ہے۔﴿ إِنَّ مَعَ الْعُسْرِ يُسْرًا ﴾ [2] حق کے خلاف سازشوں کا جال جتنا بھی مضبوط ہو وہ ٹوٹ جاتا ہے اور سازشی بے نقاب ہوجاتے ہیں ۔حضرت یوسف (علیہ السلام) کے خلاف جتنی سازشیں کی گئیں ، چاہے وہ ان کے بھائیوں نے کی ہوں ، یا زلیخا اور اس کی سہیلیوں نے، آخر کار ان ساری سازشوں کا پول کھل گیا، اور عزت اور فتح تمام تر حضرت یوسف (علیہ السلام) ہی کے حصے میں آئی۔ ﴿ قَالَتِ امْرَأَتُ الْعَزِيزِ الْآنَ حَصْحَصَ الْحَقُّ أَنَا رَاوَدْتُهُ عَنْ نَفْسِهِ وَإِنَّهُ لَمِنَ الصَّادِقِينَ ﴾ [3] (عزیز مصر کی بیوی بول اٹھی کہ اب تو سچی بات نتھر آئی۔ میں نے ہی اسے ورغلایا تھا، اس کے جی سے، اور یقیناً وه سچوں میں سے ہے۔) اللہ تعالی محسنین یعنی احسان کرنے والوں کے اجر کو ضائع نہیں کرتااور انہیں اپنے فضل سے نوازتاہے:﴿وَكَذلِكَ نَجْزِي الْمُحْسِنِينَ﴾ "حقیقت یہ ہے کہ جو بات اس آیت کے آخر میں فرمائی گئی ہے﴿ إِنَّهُ مَنْ يَتَّقِ وَيَصْبِرْ فَإِنَّ اللَّهَ لَا يُضِيعُ أَجْرَ الْمُحْسِنِينَ﴾ یعنی تقویٰ ، صبر اور احسان، یہ سورت کا مرکزی مضمون
[1] سورت یوسف :100۔ [2] سورت الانشراح آیت:6۔ [3] سورت یوسف آیت:51۔