کتاب: تفسیر سورۂ یوسف - صفحہ 39
کی اتباع کرنے والوں کا راستہ ہے۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی وعوت بصیرت ،علم، دلائل اور حِکَم پر مشتمل ہے۔ چنانچہ اللہ تعالیٰ آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے فرماتے ہیں :" آپ کہہ دیجئے میری راه یہی ہے۔ میں اور میرے متبعین اللہ کی طرف بلا رہے ہیں ، پورے یقین اور اعتماد کے ساتھ۔ اور اللہ پاک ہے اور میں مشرکوں میں نہیں ۔" یہ عمل لوگوں کو دائمی عذاب سے بچانے والا اور داعی کے لیے صدقۂ جاریہ ہے۔ قرآن حکیم کے بیان کردہ واقعات میں لوگوں کے لیے درس عبرت ہے۔ سیدنایوسف علیہ السلام کو حاسدین نے کنوئیں میں ڈال دیا لیکن بعد میں عاجزی کے ساتھ ان کے سامنے حاضر ہوئے۔ اسی طرح مکہ والے نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو مکہ سے ہجرت پر مجبور کریں گے لیکن ایک روز ان کے سامنے ندامت کے ساتھ کھڑے ہوں گے۔ اللہ کی سنت ہے کہ وہ تقویٰ اور صبر کی صفات رکھنے والوں کو ہی سرخرو کرتا ہے۔[1] سورہ یوسف سے مستنبط دروس و نکات اور اسرارورموز غلبہ بہرحال حق ہی کا ہوتا ہے۔ جبکہ حق والے صحیح طور پر راہ حق پر مستقیم و ثابت قدم رہیں ۔ بھائیوں نے بھی اس کا اعتراف کیا اور بزبانِ قرآن کہا:﴿قَالُوا تَاللَّهِ لَقَدْ آثَرَكَ اللَّهُ عَلَيْنَا وَإِنْ كُنَّا لَخَاطِئِينَ ﴾[2] (انہوں نے کہا اللہ کی قسم! اللہ تعالیٰ نے تجھے ہم پر برتری دی ہے اور یہ بھی بالکل سچ ہے کہ ہم خطا کار تھے۔) اللہ تعالیٰ اپنے بندوں کی بہتری کیلئے بڑی باریک بینی سے تدبیر فرماتا ہے، جیسا کہ حضرت یوسف کے اس قصے سے ظاہر اور واضح ہےجیسا کہ یوسف علیہ السلام نے بزبانِ قرآن کہا:﴿ إِنَّ
[1] (گیارھویں رکوع کے تناظر میں 105تا111آیات کے تناظر میں) اس خلاصہ کی تحریر میں ایک حد تک استفادہ' خلاصہ مضامین قرآن از انجینئیرنوید احمد'سے کیاگیاہے۔ مترجم عبارتیں حافظ محمد جونا گڑھی کے مترجم قرآن کریم سے لی گئی ہیں۔ [2] سورت یوسف :91