کتاب: تفسیر سورۂ یوسف - صفحہ 38
نے ان الفاظ کے ساتھ اللہ تعالیٰ کا شکر اداکیا:" اس نے میرے ساتھ بڑا احسان کیا جب کہ مجھے جیل خانے سے نکالا اور آپ لوگوں کو صحرا سے لے آیا اس اختلاف کے بعد جو شیطان نے مجھ میں اور میرے بھائیوں میں ڈال دیا تھا۔ میرا رب جو چاہے اس کے لئے بہترین تدبیر کرنے والا ہے۔ اور وه بہت علم وحکمت والا ہے۔ اے میرے پروردگار! تو نے مجھے ملک عطا فرمایا اور تو نے مجھے خواب کی تعبیر سکھلائی۔ اے آسمان وزمین کے پیدا کرنے والے! تو ہی دنیا وآخرت میں میرا ولی (دوست) اور کارساز ہے، تو مجھے اسلام کی حالت میں فوت کر اور نیکوں میں ملا دے"[1] یوسف علیہ السلام کا سارا قصہ بیان کرنے کے بعد پیارے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو مخاطب فرماکر اللہ تعالیٰ قصہ یوسف کی بابت یوں فرماتے ہیں :" یہ غیب کی خبروں میں سے ہے جس کی ہم آپ کی طرف وحی کر رہے ہیں ۔ آپ ان کے پاس نہ تھے جب کہ انہوں نے اپنی بات ٹھان لی تھی اور وه فریب کرنے لگے تھے"نیز فرمایا:" گو آپ لاکھ چاہیں لیکن اکثر لوگ ایمان دار نہ ہوں گے۔آپ ان سے اس پر کوئی اجرت طلب نہیں کر رہے ہیں ۔ یہ تو تمام دنیا کے لئے نری نصیحت ہی نصیحت ہے" [2][3] آخری رکوع میں آگاہ کیا گیا کہ آسمان و زمین میں بیشمار نشانیاں ہیں جو لوگ دیکھتے ہیں لیکن ان سے حق کی معرفت حاصل نہیں کرتے۔جس طرح لوگ توحیدباری پراتنی زیادہ نشانیاں دیکھ کر ایمان نہیں لاتے اسی طرح نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے جب سیدنا یوسف علیہ السلام کا قصہ وحی کی روشنی میں بیان کیاتو یہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی سچائی کی دلیل ہے اور لوگ یہ دلیل دیکھ کر بھی ایمان نہیں لائےتو اس سے اے نبی صلی اللہ علیہ وسلم آپ پریشان نا ہوں ۔ نیز اکثر لوگ اللہ پر ایمان لے آتے ہیں لیکن ساتھ ہی شرک بھی کیے جاتے ہیں ۔ شرک سے روکنا اور صرف اللہ ہی کی بندگی کی دعوت دینانبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اور آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم)
[1] سورةیوسف:100،101۔ [2] سورةیوسف:103،104۔ [3] (گیارھویں رکوع کے تناظر میں 94تا104آیات کے تناظر میں)