کتاب: تفسیر سورۂ یوسف - صفحہ 37
نہ چھوڑا اور اپنے بیٹوں کو حکم دیا کہ جاؤ اور تلاش کرو یوسف علیہ السلام اور اس کے بھائی کو اور اللہ کی رحمت سے مایوس نہ ہونا۔ بیشک اللہ کی رحمت سے صرف اور صرف کافر لوگ مایوس ہوتےہیں ۔ سیدنا یوسف علیہ السلام کے بھائی تیسری بار ان کے سامنے حاضر ہوئے تو اپنے خاندان والوں کے رنج و الم کا ذکر کیا اور التجا کی:"کہ اے عزیز! ہم کو اور ہمارے خانداں کو دکھ پہنچا ہے۔ ہم حقیر پونجی لائے ہیں پس آپ ہمیں پورے غلہ کا ناپ دیجئے اور ہم پر خیرات کیجئے، اللہ تعالیٰ خیرات کرنے والوں کو بدلہ دیتا ہے۔"[1] سیدنا یوسف علیہ السلام اپنے بھائیوں کی لارچارگی کی یہ کیفیت برداشت نہ کرسکے اور ان سے پوچھا کہ تم نے اپنے دور جاہلیت میں یوسف اور اس کے بھائی کے ساتھ کیا کیا تھا ؟ بھائیوں نے حیرت سے پوچھا کیا آپ یوسف ہیں ؟ اُنہوں نے جواب دیا جی ہاں ! بھائیوں نے سیدنا یوسف علیہ السلام سے اپنے کئے کی معافی مانگی۔ سیدنا یوسف علیہ السلام نے بھائیوں کو معاف کردیا۔ انہیں اپناکرتا دیا اور فرمایا کہ اسے جاکر والد صاحب کے چہرے پر ڈال دو ۔ اس کرتے سے انہیں میری خوشبو محسوس ہوگی اور ان کی بینائی لوٹ آئے گی۔[2] گیارہویں رکوع کا مضمون یہ ہے کہ سیدنایوسف علیہ السلام کے بھائی واپس گئے اوراُن کا کرتا سیدنایعقوب علیہ السلام کے چہرے پر ڈالا تو ان کی بینائی پھر سے لوٹ آئی۔ سیدنا یعقوب علیہ السلام اپنے پورے خاندان کے ساتھ فلسطین سے مصر منتقل ہوگئے۔ سیدنایوسف علیہ السلام نے اپنے والدین کا خاص اکرام کیا اور انہیں اپنے ساتھ تخت پر بٹھالیا۔ سیدنایوسف علیہ السلام اب مصر کے بادشاہ بن چکے تھے، لہٰذا بادشاہ کے سامنے، ان کے والد، والدہ اور تمام بھائیوں نے سجدۂ تعظیمی کیا۔ گویا اس وقت شریعت میں سجدۂ تعظیمی کی اجازت تھی۔ یہ تھی سیدنا یوسف علیہ السلام کے خواب کی تعبیر کہ سورج، چاند اور گیارہ ستارے ان کو سجدہ کر رہے ہیں ۔ سیدنا یوسف علیہ السلام
[1] سورةیوسف:88 [2] (دسویں رکوع کے تناظر میں 80تا93آیات کے تناظر میں)