کتاب: تفسیر سورۂ یوسف - صفحہ 36
اور جو تم بیان کرتے ہو اسے اللہ ہی خوب جانتا ہے"[1] سیدنا یوسف علیہ السلام سے درخواست کی :" کہ اے عزیز مصر! اس کے والد بہت بڑی عمر کے بالکل بوڑھے شخص ہیں ۔ آپ اس کے بدلے ہم میں سے کسی کو لے لیجئے۔ ہم دیکھتے ہیں کہ آپ بڑے نیک نفس ہیں ۔"سیدنا یوسف علیہ السلام نے ایسا کرنے سے انکار کردیا۔[2][3] دسویں رکوع میں بیان کیا گیا کہ جب یوسف علیہ السلام نے بھائیوں کو انکار کر دیا تو وہ مایوس ہو کر" تنہائی میں بیٹھ کر مشوره کرنے لگے۔ ان میں جو سب سے بڑا تھا اس نے کہا تمہیں معلوم نہیں کہ تمہارے والد نے تم سے اللہ کی قسم لے کر پختہ قول قرار لیا ہے اور اس سے پہلے یوسف کے بارے میں تم کوتاہی کر چکے ہو۔ پس میں تو اس سرزمین سے نہ ٹلوں گا جب تک کہ والد صاحب خود مجھے اجازت نہ دیں یا اللہ تعالیٰ میرے معاملے کا فیصلہ کر دے، وہی بہترین فیصلہ کرنے والا ہے۔تم سب والد صاحب کی خدمت میں واپس جاؤ اور کہو کہ اباجی! آپ کے صاحبزادے نے چوری کی اور ہم نے وہی گواہی دی تھی جو ہم جانتے تھے۔ ہم کچھ غیب کی حفاظت کرنے والے نہ تھے۔آپ اس شہر کے لوگوں سے دریافت فرما لیں جہاں ہم تھے اور اس قافلہ سے بھی پوچھ لیں جس کے ساتھ ہم آئے ہیں ، اور یقیناً ہم بالکل سچے ہیں ۔"[4] یہ ماجرا سن کر سیدنا یعقوب علیہ السلام کو شدیدصدمہ پہنچا۔انہوں نےکہا:" یہ تو نہیں ، بلکہ تم نے اپنی طرف سے بات بنالی، پس اب صبر ہی بہتر ہے۔ قریب ہے کہ اللہ تعالیٰ ان سب کو میرے پاس ہی پہنچا دے۔ وه ہی علم وحکمت والا ہے" [5] مسلسل رونے کی وجہ سے ان کی بینائی جاتی رہی تھی۔ اُنہوں نے شدت غم کے باوجود امید کا دامن ہاتھ سے
[1] سورةیوسف:77۔ [2] سورةیوسف:78 [3] (نویں رکوع کے تناظر میں 69تا 79آیات کے تناظر میں) [4] سورةیوسف:80تا82۔ [5] سورةیوسف:83۔