کتاب: تفسیر سورۂ یوسف - صفحہ 34
تمام بیگمات کو بلایا اور ان سے پوچھا:" پوچھا اے عورتو! اس وقت کا صحیح واقعہ کیا ہے جب تم داؤ فریب کر کے یوسف کو اس کی دلی منشا سے بہکانا چاہتی تھیں ،"[1] سب نے اعتراف کیا کہ سیدنا یوسف علیہ السلام بےقصور اور بڑے پاکیزہ کردار کے حامل ہیں ۔بیگمات کی زبانی اپنی پاک دامنی ثابت ہونے پر:" یوسف علیہ السلام نے کہا) یہ اس واسطے کہ (عزیز) جان لے کہ میں نے اس کی پیٹھ پیچھے اس کی خیانت نہیں کی اور یہ بھی کہ اللہ دغابازوں کے ہتھکنڈے چلنے نہیں دیتا۔میں اپنے نفس کی پاکیزگی بیان نہیں کرتا۔ بیشک نفس تو برائی پر ابھارنے والا ہی ہے، مگر یہ کہ میرا پروردگار ہی اپنا رحم کرے، یقیناً میرا پالنے والا بڑی بخشش کرنے والا اور بہت مہربانی فرمانے والا ہے۔" [2] اب بادشاہ نے کہا کہ یوسف علیہ السلام کو میرے پاس لے آؤ، میں انہیں اپنے مقربین میں شامل کرلوں گا۔ یوسف ( علیہ السلام) نے بادشاہ کے پاس پہنچ کر فرمایا کہ مجھے زمین کے خزانوں پر مامور کردیا جائے۔ میں ان شاء اللہ عمدگی سے ان خزانوں کی حفاظت کروں گا۔ یوں یوسف علیہ السلام کو بادشاہ کے پاس ایک خاص منصب حاصل ہوگیا۔[3] آٹھویں رکوع میں بیان کیا گیا کہ خوشحالی کےسات (7) سال گزرنے کے بعدجب خشک سالی کے سال آئے تو دور دراز کے علاقوں تک یہ خبرجا پہنچی کہ مصر میں خوراک کے ذخائر محفوظ ہیں ۔ سیدنا یوسف علیہ السلام کے بھائی خوراک کے حصول کے لیے فلسطین سے مصر آئے۔سیدنا یوسف علیہ السلام نے انہیں پہچان لیا اور انہوں نے اسے نہ پہچانا۔" [4]سیدنا یوسف علیہ السلام کے اخلاق کی بلندی دیکھئے کہ کسی انتقامی جذبہ کا اظہار تک نہیں کیا۔ بھائیوں نے اپنے لیے خوراک کا راشن حاصل کیا اور چھوٹے بھائی بن یامین کے لیے بھی جو سیدنایوسف علیہ السلام کا سگا بھائی تھا۔ وہ ان کے ساتھ نہ آیا تھا۔ سیدنایوسف علیہ السلام نے آئندہ اسے بھی ساتھ لانے کی تاکید کی۔ مزید
[1] سورة یوسف:51۔ [2] سورة یوسف:52،53۔ [3] (ساتویں رکوع کے تناظر میں 50تا 57آیات کے تناظر میں) [4] سورةیوسف:58۔