کتاب: تفسیر سورۂ یوسف - صفحہ 33
کی تعبیر دے سکتے ہو۔"[1] بادشاہ کے دربار میں موجود کوئی بھی سرداراِس خواب کی تعبیر نہ بتا سکا۔ وہ ساقی جو رہا ہوکر یوسف علیہ السلام سے کیا ہوا وعدہ بھول چکاتھاکہ بادشاہ سے ان کی بے گناہی کا ذکر کرے گا، بادشاہ کی اجازت سے حضرت یوسف ( علیہ السلام) کے پاس خواب کی تعبیر پوچھنے کے لیے آیا۔ سیدنا یوسف ( علیہ السلام) نے اعلیٰ ظرفی کا مظاہرہ کرتے ہوئے ساقی سے کوئی شکایت نہیں کی کہ تم نے میرے بلا قصور قید ہونے کے بارے میں بادشاہ کو کیوں نہیں بتایا ؟ خواب کی تعبیر بتائی اور ساتھ بحران سے نکلنے کا حل بھی بتایا:" یوسف نے جواب دیا کہ تم سات سال تک پے درپے لگاتار حسب عادت غلہ بویا کرنا، اور فصل کاٹ کر اسے بالیوں سمیت ہی رہنے دینا سوائے اپنے کھانے کی تھوڑی سی مقدار کے۔اس کے بعد سات سال نہایت سخت قحط آئیں گے وه اس غلے کو کھا جائیں گے، جو تم نے ان کے لئے ذخیره رکھ چھوڑا تھا، سوائے اس تھوڑے سے کے جو تم روک رکھتے ہو۔اس کے بعد جو سال آئے گا اس میں لوگوں پر خوب بارش برسائی جائے گی اور اس میں (شیرہٴ انگور بھی) خوب نچوڑیں گے۔"[2] گویاسیدنا یوسف علیہ السلام نے مسئلہ بھی بتایا اور مسئلہ کا حل بھی تجویز فرمادیا۔[3] ساتویں رکوع میں یہ مضمون بیان ہوا کہ جب ساقی نے بادشاہ کو یوسف علیہ السلام کی بیان کردہ خواب کی تعبیر بتائی تو وہ بہت متأثر ہوا۔ اس نے کہا کہ یوسف (علیہ السلام کو میرے پاس لے آؤ۔چنانچہ " جب قاصد یوسف کے پاس پہنچا تو انہوں نے کہا، اپنے بادشاه کے پاس واپس جا اور اس سے پوچھ کہ ان عورتوں کا حقیقی واقعہ کیا ہے جنہوں نے اپنے ہاتھ کاٹ لئے، تھے؟ ان کے حیلے کو (صحیح طور پر) جاننے والا میرا پروردگار ہی ہے۔"یعنی سیدنا یوسف ( علیہ السلام) نے قید خانہ سے باہر آنا قبول نہ کیا۔ مطالبہ کیا کہ پہلے تحقیق کی جائے کہ مجھے کیوں قید خانہ میں ڈالا گیا ؟ بادشاہ نے
[1] سورة یوسف:43۔ [2] سورة یوسف:47تا49۔ [3] (چھٹےرکوع کے تناظر میں 43تا 49آیات کے تناظر میں)