کتاب: تفسیر سورۂ یوسف - صفحہ 29
درہموں پر ہی بیچ ڈالا، وه تو یوسف کے بارے میں بہت ہی بے رغبت تھے۔"[1] وہاں کے ایک منصب دار عزیز مصرنے انہیں خرید لیا۔ [2]
تیسرے رکوع میں سیدنا یوسف ( علیہ السلام) پر اللہ کے عنایات وامتحان کا بیان ہے۔ سستے داموں یوسف علیہ السلام کو خرید کر اپنے گھر لانے والے عزیز مصر نے اپنی بیوی سے کہا:" کہ اسے بہت عزت واحترام کے ساتھ رکھو، بہت ممکن ہے کہ یہ ہمیں فائده پہنچائے یا اسے ہم اپنا بیٹا ہی بنا لیں ،، یوں ہم نے مصر کی سرزمین میں یوسف کا قدم جما دیا کہ ہم اسے خواب کی تعبیر کا کچھ علم سکھا دیں ۔ اللہ اپنے ارادے پر غالب ہے لیکن اکثر لوگ بے علم ہوتے ہیں ۔"[3] اللہ تعالیٰ نے یوسف علیہ السلام کو درست قوت فیصلہ کی صلاحیت اور علم سے بہرہ ور کیا:" اور جب (یوسف) پختگی کی عمر کو پہنچ گئے ہم نے اسے قوت فیصلہ اور علم دیا، ہم نیک کاروں کو اسی طرح بدلہ دیتے ہیں ،"[4] سیدنا یوسف علیہ السلام کی تربیت اللہ تعالیٰ نے خود کی ۔انہیں باتوں کی تہہ تک پہنچنے کا فہم حاصل ہوگیا۔ پھر اللہ تعالیٰ نے اپنے خاص فیض سے انہیں خوابوں کی تعبیر بھی سکھائی۔ جب سیدنایوسف علیہ السلام جوان ہوئے تو عزیز مصر کی بیوی نے ان کی خوبصورتی سے متأثر ہو کر انہیں دعوت گناہ دی۔سیدنا یوسف علیہ السلام نے گناہ سے بچنے کے لیے اللہ تعالیٰ کی پناہ طلب کی اور فرمایا:" اللہ کی پناه! وه میرا رب ہے، مجھے اس نے بہت اچھی طرح رکھا ہے۔ بے انصافی کرنے والوں کا بھلا نہیں ہوتا۔"[5] چنانچہ اللہ تعالیٰ نے ان کی حفاظت فرمائی۔ عزیز مصر کی بیوی نے سیدنایوسف علیہ السلام پر برے فعل کا ارادہ کرنے کی تہمت لگائی لیکن اللہ تعالیٰ نے آپ علیہ السلام
[1] سورة یوسف:20۔
[2] (دوسرےرکوع کے تناظر میں ،7تا20 آیات کے تناظر میں)
[3] سورة یوسف:21۔
[4] سورة یوسف:22۔
[5] سورة یوسف:23۔