کتاب: تفسیر سورۂ یوسف - صفحہ 28
سلسلہ میں انہوں نے جومشاورت کی اللہ تعالی نے وہ قرآن بنادی:" یوسف کو تو مار ہی ڈالو یا اسے کسی (نامعلوم) جگہ پھینک دو کہ تمہارے والد کا رخ صرف تمہاری طرف ہی ہو جائے۔ اس کے بعد تم نیک ہو جانا۔ان میں سے ایک نے کہا یوسف کو قتل تو نہ کرو بلکہ اسے کسی اندھے کنوئیں (کی تہ) میں ڈال آؤ کہ اسے کوئی (آتا جاتا) قافلہ اٹھا لے جائے اگر تمہیں کرنا ہی ہے تو یوں کرو۔[1] اپنے طے کردہ منصوبہ کے مطابق ، اُنہوں نے بہانے سے والد صاحب سے اجازت لی اور یوسف (علیہ السلام) کو اپنے ساتھ جنگل لے گئے تا کہ سیدنا یوسف علیہ السلام وہاں پر کھیلیں اور خوب کھائیں ۔ پھر انہیں ایک خشک کنویں میں ڈال دیا۔ ایسے میں اللہ نے سیدنایوسف ( علیہ السلام) کو الہام کے ذریعے سے بشارت دی :" کہ یقیناً (وقت آرہا ہے کہ) تو انہیں اس ماجرا کی خبر اس حال میں دے گا کہ وه جانتے ہی نہ ہوں ۔"[2] یعنی تم ایک روز بھائیوں سے ان کی اس ظالمانہ حرکت کے بارے میں انکشاف واظہار کرو گے۔ ان کے بھائی رات گئے گھر واپس آئے اور اپنےوالد سیدنا یعقوب علیہ السلام کے سامنے جھوٹ بولا کہ سیدنایوسف علیہ السلام کو بھیڑیا کھا گیا ہے۔سیدنا یعقوب علیہ السلام سمجھ گئے کہ یہ خبرصاف جھوٹ ہے۔ اُنہوں نے اللہ تعالیٰ سے صبر کی توفیق مانگی۔ اس سارے ظلم و استبداد کو جو یوسف علیہ السلام پرکیاگیا، اللہ تعالیٰ نے سیدنا یعقوب علیہ السلام سے مخفی رکھااور اس وقت بذریعہ وحی انہیں مطلع نہیں کیا۔ ایک قافلے کا کنویں کے پاس سے گزر ہوا۔ وہ سیدنایوسف علیہ السلام کو مصر لے گیا" اور انہوں نے اسے بہت ہی ہلکی قیمت پر گنتی کے چند
[1] سورة یوسف:9،10۔ [2] سورة یوسف:15۔