کتاب: تفسیر سورۂ یوسف - صفحہ 240
﴿وَاللَّهُ غَالِبٌ عَلَى أَمْرِهِ وَلَكِنَّ أَكْثَرَ النَّاسِ لَا يَعْلَمُونَ ﴾ ( اللہ جو چاہتا ہے وہ کر کے ہی رہتا ہے مگر لوگوں کی اکثریت یہ بات نہیں جانتی)۔ ٭ لہذایاد رکھیں آپ کے عزیزوں کی چالیں اور حسد شاید آپ کے بارے میں اللہ کی خیر کی اسکیم کو ہی کامیاب بنانے کی کوئی خدائی چال ہو ۔ انہیں کرنے دیں جو وہ کرتے ہیں ، اللہ پاک سے خیر مانگیں !اور ان کی کوتاہیوں اور چالوں سے درگزر کرتے جایئں ۔ ﴿مَا كَانَ حَدِيثًا يُفْتَرَى وَلَكِنْ تَصْدِيقَ الَّذِي بَيْنَ يَدَيْهِ وَتَفْصِيلَ كُلِّ شَيْءٍ وَهُدًى وَرَحْمَةً لِقَوْمٍ يُؤْمِنُونَ﴾ (ان کی سرگزشتوں میں بڑا سامان عبرت ہے عقل والوں کے لیے یہ قرآن کریم کوئی گھڑی ہوئی چیز نہیں ہے بلکہ تصدیق ہے اس چیز کی جو اس سے پہلے موجود ہے اور تفصیل ہے ہر چیز کی اور ہدایت و رحمت ہے ایمان لانے والوں کے لیے۔ ) قرآن کی حقیقت اور اس میں بیان کردہ واقعات کی حیثیت " اس آیت کریمہ میں سب سے پہلی بات یہ فرمائی گئی ہے کہ حضرت یوسف (علیہ السلام) کے واقعات دیگر انبیائے کرام کے واقعات کا حصہ ہیں کیونکہ تمام انبیاء کرام ایک ہی سلسلہ ہدایت کی کڑیاں ہیں اور ان کے واقعات بھی ایک ہی مقصد کی سلک میں پروئے ہونے کی وجہ سے باہم پیوست ہیں ۔ ان واقعات کو قرآن کریم تاریخ کے طور پر بیان نہیں کرتا اور نہ یہ مقصد ہے کہ لوگ ان سے تفریح حاصل کریں بلکہ ان واقعات میں سے ان باتوں کو چھانٹ چھانٹ کر بیان کیا جاتا ہے جن میں انسانوں کے لیے ہدایت و عبرت ہے۔ عبرت کے حصول کے لیے چونکہ عقل سلیم کی ضرورت ہے اس لیے یہ واقعات عقل والوں کے لیے تو عبرت کا باعث ہوتے ہیں باقی لوگ شاید ان سے کوئی فائدہ نہ اٹھا سکیں ۔ معلوم ہوتا ہے کہ جب قریش مکہ کے جواب میں آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے حضرت یوسف (علیہ السلام) کی ساری زندگی کے وہ اہم واقعات جن میں ہمارے لیے عبرت و نصیحت تھی ایک ہی نشست میں سورة یوسف ( علیہ السلام) کی صورت میں بیان کردیئے تو قریش مکہ نے ایمان