کتاب: تفسیر سورۂ یوسف - صفحہ 24
اَنْبِیْآئَ وَجَعَلَکُمْ مُّلُوْکًا ﴾ اس کے بعد ملک میں ایک زبردست قوم پرستانہ تحریک اٹھی جس نے ہکسوس اقتدار کا تخت الٹ دیا۔ اڑھائی لاکھ کی تعداد میں عمالقہ ملک سے نکال دیئے گئے۔ ایک نہایت متعصب قبطی النسل خاندان برسراقتدار آگیا اور اس نے عمالقہ کے زمانہ کی یادگاروں کو چن چن کر مٹا دیا اور بنی اسرائیل پر ان مظالم کا سلسلہ شروع کیا جن کا ذکر حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کے قصے میں آتا ہے۔
مصری تاریخ سے یہ بھی پتہ چلتا ہے کہ ان چرواہے بادشاہوں نے مصری دیوتائوں کو تسلیم نہیں کیا تھا بلکہ اپنے دیوتا شام سے اپنے ساتھ لائے تھے اور ان کی کوشش یہ تھی کہ مصر میں ان کا مذہب رائج ہو۔ یہی وجہ ہے کہ قرآن مجید حضرت یوسف (علیہ السلام) کے ہم عصر بادشاہ کو ” فرعون “ کے نام سے یاد نہیں کرتا کیونکہ ” فرعون “ مصر کی مذہبی اصطلاح تھی اور یہ لوگ مصری مذہب کے قائل نہ تھے لیکن بائبل میں غلطی سے اس کو بھی ” فرعون “ ہی کا نام دیا گیا ہے۔ شاید اس کے مرتب کرنے والے سمجھتے ہوں گے کہ مصر کے سب بادشاہ ” فراعنہ “ ہی تھے۔
موجود زمانہ کے محققین جنھوں نے بائبل اور مصری تاریخ کا تقابل کیا ہے، عام رائے یہ رکھتے ہیں کہ چرواہے بادشاہوں میں سے جس فرمانروا کا نام مصری تاریخ میں اپوفیس (APOPHIS) ملتا ہے، وہی حضرت یوسف (علیہ السلام) کا ہم عصر تھا۔
مصر کا دارالسلطنت اس زمانہ میں ممفس (منف) تھا جس کے کھنڈر قاہرہ کے جنوب میں ١٤ میل کے فاصلے پر پائے جاتے ہیں ۔ حضرت یوسف (علیہ السلام) ١٧، ١٨ سال کی عمر میں وہاں پہنچے۔ دو تین سال عزیزمصر کے گھر رہے۔ آٹھ نو سال جیل میں گزارے۔ ٣٠ سال کی عمر میں ملک کے فرمانروا ہوے اور ٨٠ سال تک بلاشرکت غیرے تمام مملکت مصر پر حکومت کرتے رہے۔ اپنی حکومت کے نویں یا دسویں سال انھوں نے حضرت یعقوب (علیہ السلام) کو اپنے پورے خاندان کے ساتھ فلسطین سے مصر بلالیا اور اس علاقے میں آباد کیا جو دمیاط اور قاہرہ کے درمیان واقع ہے۔ بائبل میں اس علاقے کا نام جُشن یا گوشن بتایا گیا ہے۔ حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کے زمانے تک یہ لوگ اسی علاقے میں آباد رہے۔ بائبل کا بیان ہے کہ حضرت یوسف (علیہ السلام) نے ١١٠ سال کی عمر میں وفات پائی اور انتقال کے وقت بنی اسرائیل کو وصیت کی کہ جب تم اس ملک سے نکلو تو میری ہڈیاں اپنے ساتھ لے کر جانا۔