کتاب: تفسیر سورۂ یوسف - صفحہ 239
٭ یوسف عزیز کے گھر گئے تو نعمتوں بھرے ماحول سے اٹھا کر جیل میں ڈال دیا چنانچہ سیدنا یوسف اس آیت کا مصداق ٹھہرے : ﴿ إِنَّ مَعَ الْعُسْرِ يُسْرًا ﴾ ٭ جیل کے ساتھیوں کی تعبیر بتائی تو بچ جانے والے سے کہا کہ میرے کیس کا ذکر بادشاہ کے دربار میں کرنا،،مگر مناسب وقت تک یوسف کو جیل میں رکھنے کی اسکیم کے تحت شیطان نے اسے بھلا دیا یوں شیطان بھی اللہ خالق کائنات کی اسکیم کو نہ سمجھ سکا اور بطورِ ٹول استعمال ہو گیا ،،اگر اس وقت یوسف علیہ السلام کا ذکر ہو جاتا تو یوسف سوالی ہوتے اور رب کو یہ پسند نہیں تھا ،، اس کی اسکیم میں بادشاہ کو سوالی بن کر آنا تھا ، اور پھر بادشاہ کو خواب دکھا کر سوالی بنایا اور یوسف علیہ السلام کی تعبیر نے ان کی عقل و دانش کا سکہ جما دیا ،، بادشاہ نے بلایا تو فرمایا میں : این آر او " کے تحت باہر نہیں آؤں گا جب تک عورتوں والے کیس میں میری بے گناہی ثابت نہ ہو جائے ،،عورتیں بلوائی گئیں ،، سب نے یوسف کی پاکدامنی کی گواہی دی اور مدعیہ عورت نے بھی جھوٹ کا اعتراف کر کے کہہ دیا کہ:﴿ الْآنَ حَصْحَصَ الْحَقُّ أَنَا رَاوَدْتُهُ عَنْ نَفْسِهِ وَإِنَّهُ لَمِنَ الصَّادِقِينَ﴾ ٭ وہی قحط کا خواب جو بادشاہ کو یوسف کے پاس لایا تھا ،، وہی قحط ہانک کے یوسف کے بھائیوں کو بھی ان کے دربار میں لے آیا ،، اور دکھا دیا کہ یہ وہ بےبس معصوم بچہ ہے جسے تمہارے حسد نے بادشاہ بنا دیا :" آپ کہہ دیجئے اے اللہ! اے تمام جہان کے مالک! تو جسے چاہے بادشاہی دے اور جس سے چاہے سلطنت چھین لے اور تو جسے چاہے عزت دے اورجسے چاہے ذلت دے، تیرے ہی ہاتھ میں سب بھلائیاں ہیں ، بے شک تو ہر چیز پر قادر ہے۔"[1] ٭ اب یوسف نہیں یوسف کا کرتا مصر سے چلا ہے تو : کنعان کے صحراء مہک اٹھے ہیں ، یعقوب چیخ پڑے ہیں : ﴿إِنِّي لَأَجِدُ رِيحَ يُوسُفَ ۖ لَوْلَا أَن تُفَنِّدُونِ ﴾(تم مجھے سٹھیایا ہوا نہ کہو تو ایک بات کہوں " مجھے یوسف کی خوشبو آ رھی ہے )، سبحان اللہ!جب رب نہیں چاھتا تھا تو تھوڑی دور کے کنوئیں سے خبر نہیں آنے دی ،،جب سوئچ آن کیا ہے تو مصر سے کنعان تک خوشبو سفر کر گئ ہے۔
[1] سورت آل عمران:26