کتاب: تفسیر سورۂ یوسف - صفحہ 238
قصص کا مقابلہ کرسکا اور نہ ہی قصہ غیر متکررہ کا مقابلہ کرسکا۔ جس نے بھی اس میں غور وفکر کیا اس کے لیے اس میں اعجاز ہے۔ " [1] اس پوری داستان میں ایک بہت بڑا سبق یہ ہے کہ "اللہ تعالیٰ اپنی اسکیم میں مداخلت پسند نہیں کرتااور بعض معاملات کو نبیوں سے بھی مخفی رکھ کر ان کو منطقی انجام تک پہنچادیتاہے۔وہ اپنے ٹارگٹ تک بڑے لطیف اور غیر محسوس طریقے سے پہنچتا ہے ۔ ٭ یوسف کو بادشاہی کا خواب دکھایا ،، باپ کو بھی پتہ چل گیا ، ایک موجودہ نبی ہے تو دوسرا مستقبل کا نبی ہے ! مگر دونوں کو ہوا نہیں لگنے دی کہ یہ کیسے ہو گا؟ ساری سکیم اور پلان دونوں نبیوں سے مخفی رکھا۔یوسف کو حصول بلندی کے لیے کن امتحانات سےگرنا پڑے گا انہیں باپ بیٹا دونوں سے مخفی رکھا۔ ٭ خواب خوشی کا تھا ،مگر چَکرغم کا چلا دیا۔ ٭ یوسف تھوڑی دور کنوئیں میں پڑا ہے ،،خوشبو نہیں آنے دی اگر خوشبو آ گئ تو باپ ہے رہ نہیں سکے گا ،، جا کر نکلوا لے گا ! جبکہ بادشاہی کے لئے سفر اسی کنوئیں سے لکھا گیا تھا۔ ٭ اگر ان سارے امتحانی مراحل کی بابت یعقوب کو مطلع کر دیتا تو بھی اخلاقی طور پہ بہت برا لگتا ہے کہ ایک باپ اپنے بیٹے کو بادشاہ بنانے کے لئے اسے کنوئیں میں ڈال کر درخت کے پیچھے سے جھانک جھانک کے دیکھ رہا ہے کہ قافلے والوں نے اٹھایا ہے یا نہیں ! لہذا سارا انتظام اپنے ہاتھ میں رکھا ہے۔ ٭ یوسف کے بھائیوں کو بھی پتہ نہیں تھا کہ اس کنوئیں میں گرانا یوسف کو بادشاہ بنانے کی طرف ایک زینہ ہے ۔اگر انہیں پتہ ہوتا تو ان یہ رویہ نا ہوتا۔
[1] القرطبی،ابو عبد اللّٰه ،محمد بن احمد بن ابی بكر بن فرح الأنصاری الخزرجی شمس الدين (المتوفى: 671هـ): الجامع لأحكام القرآن الشهيربتفسير القرطبی۔