کتاب: تفسیر سورۂ یوسف - صفحہ 237
تمام تر حضرت یوسف (علیہ السلام) ہی کے حصے میں آئی۔ ﴿ قَالَتِ امْرَأَتُ الْعَزِيزِ الْآنَ حَصْحَصَ الْحَقُّ أَنَا رَاوَدْتُهُ عَنْ نَفْسِهِ وَإِنَّهُ لَمِنَ الصَّادِقِينَ﴾[1] (عزیز مصر کی بیوی بول اٹھی کہ اب تو سچی بات نتھر آئی۔ میں نے ہی اسے ورغلایا تھا، اس کے جی سے، اور یقیناً وه سچوں میں سے ہے۔) ٭ اللہ تعالی محسنین یعنی احسان کرنے والوں کے اجر کو ضائع نہیں کرتااور انہیں اپنے فضل سے نوازتاہے:﴿وَكَذلِكَ نَجْزِي الْمُحْسِنِينَ﴾ "حقیقت یہ ہے کہ جو بات اس آیت کے آخر میں فرمائی گئی ہے﴿ إِنَّهُ مَنْ يَتَّقِ وَيَصْبِرْ فَإِنَّ اللَّهَ لَا يُضِيعُ أَجْرَ الْمُحْسِنِينَ﴾ یعنی تقویٰ ، صبر اور احسان، یہ سورت کا مرکزی مضمون ہے۔ یہی بات سمجھانے کے لیے حضرت یوسف (علیہ السلام) کے تمام واقعات بیان کیے گئے۔ ان کا ہر عمل تقویٰ کی تصویر ہے۔ انھوں نے زندگی عزیمت اور صبر کے ساتھ گزاری اور ہر قدم اٹھانے اور ہر بات کہنے سے پہلے یقینا ان کو یہ مقام حاصل رہا ہے کہ وہ اپنے اللہ تعالیٰ کو دیکھ رہے ہیں اور اللہ تعالیٰ انہیں دیکھ رہا ہے۔" [2] "علماء نے کہا : اللہ تعالیٰ نے قرآن میں انبیاء کے قصص کو ذکر فرمایا۔ اور بلاغت کے درجات کے اعتبار سے مختلف الفاظ کے ساتھ، مختلف طریقوں سے ایک ہی معنی میں ان کا تکرار فرمایا۔ اللہ تعالیٰ نے قصہ یوسف کو ذکر فرمایا اور اس کا تکرار نہیں فرمایا تو کوئی مخالف نہ تو تکرار والے
[1] سورت یوسف آیت:51۔ [2] ڈاکٹر محمد اسلم صدیقی: تفسیر روح القرآن۔ (دیکھیں اس آیت: انہ من یتق ویصبر فان اللّٰه لا یضیع اجر المحسنین (سورت یوسف )کی تفسیر)