کتاب: تفسیر سورۂ یوسف - صفحہ 236
تَصِفُونَ ﴾" پس صبر ہی بہتر ہے، اور تمہاری بنائی ہوئی باتوں پر اللہ ہی سے مدد کی طلب ہے۔" [1] ٭ غلبہ بہرحال حق ہی کا ہوتا ہے۔ جبکہ حق والے صحیح طور پر راہ حق پر مستقیم و ثابت قدم رہیں ۔ بھائیوں نے بھی اس کا اعتراف کیا اور بزبانِ قرآن کہا:﴿ قَالُوا تَاللَّهِ لَقَدْ آثَرَكَ اللَّهُ عَلَيْنَا وَإِنْ كُنَّا لَخَاطِئِينَ ﴾[2] (انہوں نے کہا اللہ کی قسم! اللہ تعالیٰ نے تجھے ہم پر برتری دی ہے اور یہ بھی بالکل سچ ہے کہ ہم خطا کار تھے۔) ٭ اللہ تعالیٰ اپنے بندوں کی بہتری کیلئے بڑی باریک بینی سے تدبیر فرماتا ہے، جیسا کہ حضرت یوسف کے اس قصے سے ظاہر اور واضح ہےجیسا کہ یوسف علیہ السلام نے بزبانِ قرآن کہا:﴿ إِنَّ رَبِّي لَطِيفٌ لِمَا يَشَاءُ إِنَّهُ هُوَ الْعَلِيمُ الْحَكِيمُ ﴾[3] ( میرا رب جو چاہے اس کے لئے بہترین تدبیر کرنے والا ہے۔ اور وه بہت علم وحکمت والا ہے۔) ٭ یوسف علیہ السلام کو جو عروج اللہ تعالی نے عطا فرما یا اس یہ واضح ہوتا کہ ہر مظلومیت نے بہرحال آخرکار ختم ہوجانا ہوتا ہے، اور ہر اندھیرے کے بعد روشنی نے آنا ہوتا ہے اور ہر تنگی کے بعد آسانی ہے،﴿ إِنَّ مَعَ الْعُسْرِ يُسْرًا ﴾ [4] ٭ حق کے خلاف سازشوں کا جال جتنا بھی مضبوط ہو وہ ٹوٹ جاتا ہے اور سازشی بے نقاب ہوجاتے ہیں ۔حضرت یوسف (علیہ السلام) کے خلاف جتنی سازشیں کی گئیں ، چاہے وہ ان کے بھائیوں نے کی ہوں ، یا زلیخا اور اس کی سہیلیوں نے، آخر کار ان ساری سازشوں کا پول کھل گیا، اور عزت اور فتح
[1] سورت یوسف :18۔ [2] سورت یوسف :91 [3] سورت یوسف :100۔ [4] سورت الانشراح آیت:6۔