کتاب: تفسیر سورۂ یوسف - صفحہ 235
اور یہ گمان کرنے لگے کہ جو لوگ ایمان لائے ہیں اب وہ بھی ہم کو جھوٹا سمجھنے لگیں گے، تو اس وقت اللہ کی مدد آن پہنچی۔ [ بخاری، کتاب التفسیر، باب قولہ : ( حتی إذا استیئس الرسل) : ٤٦٩٥[1] ﴿ لَقَدْ كَانَ فِي قَصَصِهِمْ عِبْرَةٌ لِأُولِي الْأَلْبَابِ مَا كَانَ حَدِيثًا يُفْتَرَى وَلَكِنْ تَصْدِيقَ الَّذِي بَيْنَ يَدَيْهِ وَتَفْصِيلَ كُلِّ شَيْءٍ وَهُدًى وَرَحْمَةً لِقَوْمٍ يُؤْمِنُونَ (111) ﴾ (ان کے بیان میں عقل والوں کے لئے یقیناً نصیحت اور عبرت ہے، یہ قرآن جھوٹ بنائی ہوئی بات نہیں بلکہ یہ تصدیق ہے ان کتابوں کی جو اس سے پہلے کی ہیں ، کھول کھول کر بیان کرنے والا ہے ہر چیز کو اور ہدایت اور رحمت ہے ایمان دار لوگوں کے لئے) لَقَدْ كَانَ فِي قَصَصِهِمْ عِبْرَةٌ لِأُولِي الْأَلْبَاب یقینا اس قصہ کی بدولت قرآن کریم کی سچائی اور صداقت ثابت ہوتی ہے۔،سیدنا یوسف علیہ السلام کی تفصیلی داستان میں توحید ورسالت محمدی کی سچائی اور صداقت ثابت کی گئی ہے۔ اس میں توحیدورسالت پرایمان لانے کے فوائد اور انکار کے نقصانات بیان ہوئے ہیں ۔ ٭ داستان یوسف کی بابت سوال کرنےکا اصل مقصد تو ان کفار کے اپنے خیال کے مطابق آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو بےبس کرنا ہے، لیکن آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی زبان مبارک پر اس واقعے کا جاری ہونا آپ کی نبوت کی کھلی دلیل ہے۔ ﴿ لَقَدْ كَانَ فِي يُوسُفَ وَإِخْوَتِهِ آيَاتٌ لِلسَّائِلِينَ (7)﴾ (یقیناً یوسف اور اس کے بھائیوں میں دریافت کرنے والوں کے لئے (بڑی) نشانیاں ہیں ۔) [2] ٭ ما یوسی اور لا چاری کی حالت میں بھی صبر کا دامن ہاتھ سے نا چھوڑنا ہی کامیابی کا زینہ ہےجیسا کہ یعقوب علیہ السلام نے اپنے بیٹے یوسف علیہ السلام کو بھیڑئیے کے کھا جانے کی جھوٹی اور پریشان کن خبر سن کرصبر کا مظاہر کرتے ہوئے کہا:﴿ فَصَبْرٌ جَمِيلٌ وَاللَّهُ الْمُسْتَعَانُ عَلَى مَا
[1] ابو نعمان سیف اللہ خالد:تفسیر ابونعمان سیف اللہ خالد :تفسیردعوة القرآن۔۔ [2] سورت یوسف آیت:7۔