کتاب: تفسیر سورۂ یوسف - صفحہ 234
یہاں ظَنُّوْٓا کا فاعل متعلقہ قوم کے لوگ ہیں ‘ یعنی اب تک جو لوگ ایمان نہیں لائے تھے وہ مزید دلیر ہوگئے۔ انہوں نے یہ سمجھا کہ یہ سب کچھ واقعی جھوٹ تھا۔ کیونکہ اگر سچ ہوتا تو اتنے عرصے سے ہمیں جو عذاب کی دھمکیاں مل رہی تھیں وہ پوری ہوجاتیں ۔ ہم ایمان بھی نہیں لائے اور عذاب بھی نہیں آیا تو اس کا مطلب یہ ہے کہ نبوت کا دعویٰ اور عذاب کے یہ ڈراوے سب جھوٹ ہی تھا۔ (جَاءهُمْ نَصْرُنَا) یعنی انبیاء و رسل کی دعوت اور حق و باطل کی کشمکش کے دوران ہمیشہ ایسا ہوا کہ جب دونوں طرف کی سوچ اپنی اپنی آخری حد تک پہنچتی (پیغمبر سمجھتے کہ اب مزید کوئی شخص ایمان نہیں لائے گا اور منکرین سمجھتے کہ اب کوئی عذاب وغیرہ نہیں آئے گا یہ سب ڈھونگ تھا) تو عین ایسے موقع پر نبیوں اور رسولوں کے پاس ہماری طرف سے مدد پہنچ جاتی۔ (فَنُجِّيَ مَنْ نَّشَاءُ وَلَا يُرَدُّ بَاْسُـنَا عَنِ الْقَوْمِ الْمُجْرِمِيْنَ ) یعنی اپنے انبیاء ورسل کے لیے ہماری یہ مدد منکرین حق پر عذاب کی صورت میں آتی اور اس عذاب سے جسے ہم چاہتے بچا لیتے ‘ لیکن اس سلسلے کی اٹل حقیقت یہ ہے کہ ایسے موقع پر مجرمین پر ہمارا عذاب آکر ہی رہتا ہے۔ ان کی طرف سے اس کا رخ کسی طور سے موڑا نہیں جاسکتا۔ " [1] "وَظَنُّوْٓا اَنَّهُمْ قَدْ كُذِبُوْا : ” كُذِبُوْا“ میں دو قراءتیں ہیں ، ایک تخفیف کے ساتھ ” قَدْ كُذِبُوْا “ اور دوسری تشدید کے ساتھ ” قَدْ کُذِّبُوْا “ ہے، اسے سیدہ عائشہ (رض) اسی طرح پڑھا کرتی تھیں ، جیسا کہ عروہ بن زبیر (رح) سے روایت ہے کہ اس نے سیدہ عائشہ (رض) سے اس آیت ﴿ حَتّٰٓي اِذَا اسْتَيْــــَٔـسَ الرُّسُلُ ﴾ سے متعلق پوچھا کہ اس میں یہ لفظ ” كُذِبُوْا “ (بغیر تشدید) ہے یا ” کُذِّبُوْا “ (تشدید کے ساتھ) ؟ تو سیدہ عائشہ (رض) نے فرمایا ” کُذِّبُوْا “ (تشدید کے ساتھ) ہے۔ اس پر میں نے ان سے کہا کہ انبیاء ( علیہ السلام) تو یقین کے ساتھ جانتے تھے کہ ان کی قوم انہیں جھٹلا رہی ہے، پھر ” ظَنُّوْٓا “ سے کیا مراد ہے ؟ انھوں نے کہا، اپنی زندگی کی قسم ! بیشک پیغمبروں کو اس کا یقین تھا۔ ۔ ۔میں نے کہا، پھر اس آیت کا کیا مطلب ہے ؟ انھوں نے کہا، مطلب یہ ہے کہ پیغمبروں کو جن لوگوں نے مانا، ان کی تصدیق کی، جب ان پر ایک مدت دراز تک آفت و مصیبت آتی رہی اور اللہ کی مدد آنے میں دیر ہوئی اور پیغمبر ان کے ایمان لانے سے ناامید ہوگئے جنھوں نے ان کو جھٹلایا تھا [1] ڈاکٹر اسرا احمد: تفسیر بیان القرآن۔