کتاب: تفسیر سورۂ یوسف - صفحہ 233
دنیا کی خرابی میں ڈال دیا دنیا میں وہ طرح طرح کے عذابوں سے ہلاک ہوئے اور عقبیٰ میں جنت کی نعمتوں کو ہاتھ سے دے کر دوزخ کے عذاب میں پکڑ گئے ان اجڑی ہوئی امتوں کی طرح اس موٹی سی بات پر غور و فکر کرنے میں ان لوگوں نے کوتاہی کی اور اللہ کے رسول کے جھٹلانے پر اڑے رہے تو وہی انجام ان کا ہوگا جو ان سے پہلے لوگوں کا ہوا اللہ سچا ہے اللہ کا کلام سچا ہے۔" [1] "عالم آخرت ان کے لئے بہت ہی بہتر ہے جو احتیاط سے زندگی گزار دیتے ہیں ۔ یہاں بھی نجات پاتے ہیں اور وہاں بھی اور وہاں کی نجات یہاں کی نجات سے بہت ہی بہتر ہے۔ وعدہ الہٰی ہے آیت ﴿اِنَّا لَنَنْصُرُ رُسُلَنَا وَالَّذِيْنَ اٰمَنُوْا فِي الْحَيٰوةِ الدُّنْيَا وَيَوْمَ يَقُوْمُ الْاَشْهَادُ ﴾۔ (غافر40: 51) ہم اپنے رسولوں کی اور ان پر ایمان لانے والوں کی اس دینا میں بھی مدد فرماتے ہیں اور قیامت کے دن بھی ان کی امداد کریں گے، اس دن گواہ کھڑے ہوں گے، ظالموں کے عذر بےسود رہیں گے، ان پر لعنت برسے گی اور ان کے لئے برا گھر ہوگا۔ گھر کی اضافت آخرت کی طرف کی۔ جیسے صلوۃ اولیٰ اور مسجد جامع اور عام اول اور بارحۃ الاولیٰ اور یوم الخمیس میں ایسے ہی اضافت ہے، عربی شعروں میں بھی یہ اضافت بکثرت آئی ہے۔ " [2] ﴿حَتّٰٓي اِذَا اسْتَيْــــَٔـسَ الرُّسُلُ وَظَنُّوْٓا اَنَّهُمْ قَدْ كُذِبُوْا جَاۗءَهُمْ نَصْرُنَا ۙ فَنُجِّيَ مَنْ نَّشَاۗءُ ۭ وَلَا يُرَدُّ بَاْسُـنَا عَنِ الْقَوْمِ الْمُجْرِمِيْنَ ﴾ "یعنی متعلقہ قوم میں جس قدر فطرت سلیمہ کی استعداد (potential) تھی اس لحاظ سے نتائج سامنے آچکے۔ ان میں سے جن لوگوں نے ایمان لانا تھا وہ ایمان لا چکے اور مزید کسی کے ایمان لانے کی توقع نہ رہی۔ بالفاظ دیگر اس چاٹی میں سے جس قدر مکھن نکلنا تھا نکل چکا ‘ اب اسے مزید بلونے کا کوئی فائدہ نظر نہیں آ رہا۔ (وَظَنُّوْٓا اَنَّهُمْ قَدْ كُذِبُوْا)
[1] حافظ محمد سید حسن: تفسیر احسن التفاسیر۔ [2] ابن کثیر، أبو الفداء إسماعيل بن عمر بن كثير القرشي البصري ثم الدمشقي (المتوفى: 774هـ):تفسير القرآن العظيم۔