کتاب: تفسیر سورۂ یوسف - صفحہ 232
جو لوگوں سے ملے جلے اور ان کی ایذاؤں پر صبر کرے، وہ اس سے بہتر ہے جو نہ ان سے ملے جلے ہو نہ ان کی ایذاؤں پر صبر کرے۔ یہ جھٹلانے والے کیا ملک میں چلتے پھرتے نہیں ؟ کہ اپنے سے پہلے کے جھٹلانے والوں کی حالتوں کو دیکھیں اور ان کے انجام پر غور کریں ؟ جیسے فرمان ہے آیت:﴿ اَفَلَمْ يَسِيْرُوْا فِي الْاَرْضِ فَتَكُوْنَ لَهُمْ قُلُوْبٌ يَّعْقِلُوْنَ بِهَآ اَوْ اٰذَانٌ يَّسْمَعُوْنَ بِهَا فَاِنَّهَا لَا تَعْمَى الْاَبْصَارُ وَلٰكِنْ تَعْمَى الْقُلُوْبُ الَّتِيْ فِي الصُّدُوْرِ ﴾ ( الحج :46) یعنی کیا انہوں نے زمین کی سیر نہیں کی کہ ان کے دل سجھدار ہوتے، الخ۔ ان کے کان سن لیتے، ان کی آنکھیں دیکھ لیتیں کہ ان جیسے گنہگاروں کا کیا حشر ہوتا رہا ہے ؟ وہ نجات سے محروم رہتے ہیں ، عتاب الہٰی انہیں غارت کردیتا ہے۔" [1] "۔ ۔ ۔ لوگ جھٹلانے والے جو ہمارے رسول کو جھٹلاتے ہیں کیا یہ لوگ روئے زمین کی سیر نہیں کرتے یا پہلے لوگوں کا حال انہوں نے سنا نہیں انہیں یہ بات نہیں معلوم ہے کہ حضرت نوح (علیہ السلام) کی قوم یا حضرت ہود (علیہ السلام) یا حضرت صالح (علیہ السلام) وغیرہ کی امتوں کا کیا حال ہوا کس طرح یہ لوگ ہلاک ہوئے اور اسی زمانہ میں جو لوگ مومن تھے اور خدا اور اس کے رسول کے تابع اور فرمانبردار تھے ان کا بال بھی بیکانہیں ہوا جو کچھ عذاب آیا انہیں کافروں پر آیا خداوندعالم کا طریقہ اسی طرح برابر جاری رہا ہے کہ وہ ہمیشہ دین کا انکار کرنے والوں کے بنیاد اکھاڑ کر پھینک دیتا ہے اور اپنے خالص اور متقی بندوں کو سایہ رحمت میں لے لیتا ہے۔ اسی واسطے پھر یہ فرمایا کہ جس طرح یہ متقی بندے دنیا میں خدا کے حفظ وامان میں رہا کئے ہیں اسی طرح آخرت میں بھی ان کے واسطے عمدہ عمدہ مکانات تیار کئے گئے ہیں جو مرنے کے بعد انہیں عطا ہوں گے اور جو نعمتیں وہاں انہیں ملیں گی وہ دنیا کی نعمتوں سے بدرجہا بہتر ہوں گے ﴿ أَفَلَا تَعْقِلُونَ﴾ اس کا مطلب یہ ہے کہ یہ ایک موٹی سی بات تھی جو ان لوگوں کے دل کے جواب میں انہیں سمجھا دی گئی ہے کہ فرشتوں کا اصلی صورت میں دیکھنا تو انسان کی طاقت سے باہر ہے اس لئے کوئی فرشتہ رسول بناکر بھیجا جاتا تو ضرور وہ انسان کی شکل میں بھیجا جاتا۔ وہی شبہ ان لوگوں کو باقی رہتا جو اس وقت ہے۔ اس موٹی سی بات پر ان لوگوں کو غورو فکر کرنا اور یہ جان لینا چاہیے کہ اس نادانی کے شبہ نے پہلی امتوں کو دین و
[1] ابن کثیر، أبو الفداء إسماعيل بن عمر بن كثير القرشي البصري ثم الدمشقي (المتوفى: 774هـ):تفسير القرآن العظيم۔