کتاب: تفسیر سورۂ یوسف - صفحہ 23
تائید قرآن کے اشارات سے بھی ہوتی ہے) حضرت یعقوب (علیہ السلام) کے ١٢ بیٹے، ٤ بیویوں سے تھے، حضرت یوسف (علیہ السلام) اور ان کے چھوٹے بھائی بن یمین ایک بیوی سے، اور باقی ١٠ دوسری بیویوں سے۔ فلسطین میں حضرت یعقوب (علیہ السلام) کی جائے قیام حبرون (موجودہ الخیل) کی وادی میں تھی جہاں حضرت اسحاق (علیہ السلام) اور ان سے پہلے حضرت ابراہیم (علیہ السلام) رہا کرتے تھے۔ اس کے علاوہ حضرت یعقوب (علیہ السلام) کی کچھ زمین سکم (موجودہ نابلس) میں بھی تھی۔ بائبل کے علما کی تحقیق اگر درست مانی جائے تو حضرت یوسف (علیہ السلام) کی پیدائش ١٩٠٦ قبل مسیح کے لگ بھگ زمانے میں ہوئی اور ١٨٩٠ ق م کے قریب زمانے میں وہ واقعہ پیش آیا جس سے اس قصہ کی ابتداء ہوتی ہے، یعنی خواب دیکھنا اور پھر کنویں میں پھینکا جانا۔ اس وقت حضرت یوسف (علیہ السلام) کی عمر ١٧ برس کی تھی، جس کنویں میں وہ پھینکے گئے وہ بائبل اور تلمود کی روایات کے مطابق سکم کے شمال میں دو تن (موجودہ دثان) کے قریب واقع تھا، اور جس قافلے نے انہیں کنویں سے نکالا وہ جلعاد (شرق اردن) سے آرہا تھا اور مصر کی طرف عازم تھا۔ (جلعاد کے کھنڈرات بھی دریائے اردن کے مشرق میں وادی الیابس کے کنارے واقع ہیں ۔ ) مصر پر اس زمانہ میں پندرہویں خاندان کی حکومت تھی جو مصری تاریخ میں چرواہے بادشاہوں (HYKSIS KINGS) کے نام سے یاد کیا جاتا ہے۔ یہ لوگ عربی النسل تھے اور فلسطین و شام سے مصر جا کر ٢ ہزار برس قبل مسیح کے لگ بھگ زمانہ میں سلطنت مصر پر قابض ہوگئے تھے۔ عرب مؤرخین اور مفسرین قرآن نے ان کے لیے ” عمالیق “ کا نام استعمال کیا ہے جو مصریات کی موجودہ تحقیقات سے ٹھیک مطابقت رکھتا ہے۔ مصر میں یہ لوگ اجنبی حملہ آور کی حیثیت رکھتے تھے اور ملک کی خانگی نزاعات کے سبب سے انہیں وہاں اپنی بادشاہی قائم کرنے کا موقع مل گیا تھا۔ یہی سبب ہوا کہ ان کی حکومت میں حضرت یوسف (علیہ السلام) کو عروج حاصل کرنے کا موقع ملا اور پھر بنی اسرائیل وہاں ہاتھوں ہاتھ لیے گئے، ملک کے بہترین زرخیز علاقے میں آباد کیے گئے اور ان کو وہاں بڑا اثرورسوخ حاصل ہوا کیونکہ وہ ان غیرملکی حکمرانوں کے ہم جنس تھے۔ پندرھویں صدی قبل مسیح کے اواخر تک یہ لوگ مصر پر قابض رہے اور ان کے زمانے میں ملک کا سارا اقتدار عملاً بنی اسرائیل کے ہاتھ میں رہا۔ اسی دور کی طرف سورة مائدہ آیت ٢٠ میں اشارہ کیا گیا ہے۔﴿ اِذْ جَعَلَ فِیْکُمْ